وزیراعظم عمران خان کا مچھ سانحہ کیخلاف جاری دھرنے کے متعلق بیان انتہائی حیران کن ہے کہ وزیراعظم کی آمد سے میتوں کی تدفین کو مشروط کرنا غلط روایت ہے ۔اگراسی بیان کو ماضی کے تناظرمیں دیکھاجائے تو جب عمران خان اپوزیشن میں تھے تو وہ انتہائی جذباتی انداز میں حکومتوںکو ہدف بناتے ہوئے تنقید کرتے دکھائی دیتے رہے ہیں کہ حکمران اپنی کرپشن میں لگے ہوئے ہیں انہیں عوام کے درد کا کوئی احساس نہیں جبکہ ہزارہ کمیونٹی کے ساتھ اظہار یکجہتی کے دوران بھی انہوں نے ان کی آمد اور ان سے ملاقات کی بات کی تھی کہ حکمرانوں کو اس دردوکرب کے موقع پر متاثرین کے درمیان ہونا چاہئے۔
ملک کو 70سال سے زائد عرصہ بیت گیا مگر ہمارے یہاں مثالی حکومت کا کوئی نام ونشان ہی نہیں ملتا، تاریخ میں مختلف سانحات رونما ہوتے رہے ہیں ۔اپوزیشن نے حکمران جماعت کو دباؤ میں لانے کیلئے محض سطحی سیاست کی اور یہی تاریخ باربار دہرائی جاتی رہی ہے ۔حال ہی میں مچھ کا انتہائی دلخراش سانحہ رونما ہواجس میں مزدوروں کو انتہائی بے دردی کے ساتھ شناخت کرکے قتل کیا گیاجس پر لواحقین سمیت ہزارہ برادری نے میتوں کے ہمراہ دھرنا دے رکھا ہے ۔6روز سے دھرنا جاری ہے اور مظاہرین کا یہی مطالبہ ہے کہ جب تک وزیراعظم عمران خان خود کوئٹہ تشریف نہیں لائینگے۔
سانحہ مچھ کے شہداء کے لواحقین کی جانب سے میت کے ساتھ دھرنا جاری ہے ان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان ان سے ملاقات کرنے کوئٹہ آئیں، ان کے سامنے اپنی تمام باتیں رکھیں گے جس کے بعد میتوں کی تدفین عمل میں لائی جائے گی وگرنہ ہمارا یہ احتجاج جاری رہے گا۔ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ ہزارہ کمیونٹی کی جانب سے اپنے شہداء کی میتیں لیکر دھرنا دیاجارہا ہے ماضی میں بھی طویل دھرنے دیئے گئے اور اسی طرح وفاقی نمائندگان کوئٹہ تشریف لائے اور یقین دہانی کرائی کہ ہزارہ کمیونٹی کے قتل میںملوث دہشت گردوں کو کیفرکردار تک پہنچاکر سخت سزادی جائے گی ۔
ملک میں مہنگائی کانہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے ،اشیاء خوردنی کی قیمتوں کو پُرلگ گئے ہیں غریب عوام کی دسترس سے اشیاء خوردونوش سمیت دیگر چیزیں باہر ہوچکی ہیں نئے سال کی آمد کے ساتھ ہی بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوںمیںاضافہ سے عوام کو مہنگائی کا تحفہ دیا گیا ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ ملک میں عوام کو درپیش مسائل سے حکمرانوں کو بارہا آگاہ کیاجاتارہا ہے کہ اس وقت ملک میں سب سے بڑا مسئلہ عوام کو درپیش مشکلات ہیں اور وہ حکومتی اقدامات سے انتہائی نالاں دکھائی دے رہے ہیں جبکہ مختلف سروے رپورٹس پر واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ گزشتہ دو سالوں کے دوران ملک میں مہنگائی کی شرح میں کس قدر اضافہ ہوا ہے۔
گزشتہ روز مچھ کوئلہ فیلڈ میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 11 کان کن جاں بحق اور زخمی ہو گئے ۔پولیس حکام کے مطابق مسلح افراد مچھ کوئلہ فیلڈ میں کام کرنے والے کان کنوں کو پہلے اغوا کر کے اپنے ساتھ لے گئے اورقریبیپہاڑیوں میں سفاکانہ طریقے سے قتل کردیا۔ یہ بلوچستان میں رونما ہونے والا شدت پسندی کا پہلا واقعہ نہیں اس سے قبل بھی شدت پسند گروپوں نے بڑے واقعات میں ہمارے پڑھے لکھے طبقے، مزدوروں سمیت عام شہریوں کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا جس میں ایک بڑی تعداد ہزارہ کمیونٹی کی ہے جسے کئی دہائیوں سے دہشتگردی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔
کرپشن ایک ایسی سماجی بیماری ہے جسکی جڑیں معاشرتی نا انصافی ، عدم استحکام معاشرتی بگاڑ اور تنزلی سے جڑی ہوئی ہیں، کرپشن وہ ناسور ہے جو کسی بھی معاشرے کو دیمک ذدہ کر کے تباہی کے اتاہ گڑہوں میں اْتار دیتا ہے ، جہاں سے میرٹ ، انصاف، ایمانداری اور مساوات کے آفاقی رہنما اصولوں کی پاسداری کے بغیر واپسی کا تصور بھی نا ممکن ہے۔ شعوری آگاہی کے فقدان اور ٹھوس حکمت عملی کی کمی سے معاشرے میں بد عنوانی اور کرپشن کا عفریت چارسو اپنے گمراہ کن پر پھیلائے ہوئے ہے۔یہی وجہ ہے کہ ملک اور صوبے کی ترقی کے لئے اْٹھائے گئے اقدامات کے حوصلہ افزاء اور مطلوبہ نتائج سامنے نہیں آرہے ہیں۔
ملک کے سب سے بڑی آبادی والے شہرکراچی کا قدیم علاقہ لیاری کبھی بھی جرائم سے مکمل طور پر پاک نہیں ہوسکاہے۔ 7دہائیوں سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود لیاری کے عوام کے حصہ میں قتل وغارت گری، ڈکیتی، منشیات ہی آئے ہیں۔ لیاری میں مختلف ادوار کے دوران بڑے بڑے جرائم پیشہ افراد پیدا ہوئے جن کی سرپرستی کسی نہ کسی طرح سے مقامی پولیس کرتی آئی ہے جبکہ سیاسی جماعتوں نے اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے ان جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں مکمل طور پر کلین چٹ دے رکھی ہوئی تھی کہ وہ لیاری میں ہر قسم کے دونمبر کا کاروبار کرسکتے ہیں۔
بلوچستان میں روزگار کے ذرائع انتہائی محدود ہیں۔ بلوچستان سے منسلک ایران اور افغانستان سے ملنے والے سرحدی علاقوں کے لوگوں کا بیشتر کاروبار انہی ممالک کے سامان کی تجارت سے جڑا ہے چونکہ متبادل کوئی معاشی مواقع موجود نہیں تو عوام مجبور ہوکر ایران اور افغانستان سے سامان لاکر اپنے علاقوں میں فروخت کرتے ہیں جس کی قیمت دیگرممالک کے مصنوعات سے انتہائی کم ہوتی ہے اگر کہاجائے کہ کروڑوں روپے روزانہ تجارت ہوتی ہے تو غلط نہ ہوگا جبکہ ہزاروں خاندانوں کا چولہا بھی اسی سے جلتا ہے جب بھی سرحدبند ہوتے ہیں۔
ناامیدی کفر ہے امید وتوقع بہترمستقبل کیلئے رکھنا اچھی بات ہے انسان اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کیلئے کوششیں کرتا ہے مگر کامیابی کیلئے شرط اس کی محنت لگاؤ اور پلاننگ ہے کہ وہ کس طرح سے ماضی کے تجربات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ان پالیسیوں کو ترک کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ خسارے اور نقصان سے دوچار ہواہے ۔یہ بات ایک انسان اپنے خاندان کی زندگی کے متعلق سوچتا ہے تو ریاست پر حکمرانی کرنے والوں پر کروڑوں لوگوں کے مستقبل کا دارومدار ہوتا ہے اور ان پر کئی ذمہ داریاں عائدہوتی ہیں کہ کس طرح سے عوام کی زندگیوںمیں تبدیلی لانے کیلئے بہترین اقدامات اٹھائیں تاکہ انہیں غربت، پسماندگی سے نجات دلائی جاسکے۔
سال 2020 پوری دنیا پر جانی و مالی حوالے سے بھاری رہا، سال کے ابتدا میں ہی کورونا جیسی خطرناک وباء نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور قیامت برپا کرتے ہوئے بڑی تعداد میں اس وباء نے انسانی جانوں کو نگل لیا۔ اس وباء کے دوران ہونے والی اموات اور معاشی تنزلی کو ماہرین نے دوسری جنگ عظیم سے تشبیہ دی۔ کورونا وائرس نے جس طرح سے تباہی مچاہی اسے انسانی تاریخ میں ایک سیاہ باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا جب پوری دنیا کو اس وباء نے مکمل طور پر محدود کرکے رکھ دیا۔ لوگوں کی معمولات زندگی پر اس کے براہ راست منفی اثرات مرتب ہوئے۔