بلوچستان میں روزگار کے ذرائع انتہائی محدود ہیں۔ بلوچستان سے منسلک ایران اور افغانستان سے ملنے والے سرحدی علاقوں کے لوگوں کا بیشتر کاروبار انہی ممالک کے سامان کی تجارت سے جڑا ہے چونکہ متبادل کوئی معاشی مواقع موجود نہیں تو عوام مجبور ہوکر ایران اور افغانستان سے سامان لاکر اپنے علاقوں میں فروخت کرتے ہیں جس کی قیمت دیگرممالک کے مصنوعات سے انتہائی کم ہوتی ہے اگر کہاجائے کہ کروڑوں روپے روزانہ تجارت ہوتی ہے تو غلط نہ ہوگا جبکہ ہزاروں خاندانوں کا چولہا بھی اسی سے جلتا ہے جب بھی سرحدبند ہوتے ہیں۔
ناامیدی کفر ہے امید وتوقع بہترمستقبل کیلئے رکھنا اچھی بات ہے انسان اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کیلئے کوششیں کرتا ہے مگر کامیابی کیلئے شرط اس کی محنت لگاؤ اور پلاننگ ہے کہ وہ کس طرح سے ماضی کے تجربات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ان پالیسیوں کو ترک کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ خسارے اور نقصان سے دوچار ہواہے ۔یہ بات ایک انسان اپنے خاندان کی زندگی کے متعلق سوچتا ہے تو ریاست پر حکمرانی کرنے والوں پر کروڑوں لوگوں کے مستقبل کا دارومدار ہوتا ہے اور ان پر کئی ذمہ داریاں عائدہوتی ہیں کہ کس طرح سے عوام کی زندگیوںمیں تبدیلی لانے کیلئے بہترین اقدامات اٹھائیں تاکہ انہیں غربت، پسماندگی سے نجات دلائی جاسکے۔
سال 2020 پوری دنیا پر جانی و مالی حوالے سے بھاری رہا، سال کے ابتدا میں ہی کورونا جیسی خطرناک وباء نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور قیامت برپا کرتے ہوئے بڑی تعداد میں اس وباء نے انسانی جانوں کو نگل لیا۔ اس وباء کے دوران ہونے والی اموات اور معاشی تنزلی کو ماہرین نے دوسری جنگ عظیم سے تشبیہ دی۔ کورونا وائرس نے جس طرح سے تباہی مچاہی اسے انسانی تاریخ میں ایک سیاہ باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا جب پوری دنیا کو اس وباء نے مکمل طور پر محدود کرکے رکھ دیا۔ لوگوں کی معمولات زندگی پر اس کے براہ راست منفی اثرات مرتب ہوئے۔
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی حوالے سے کشیدگی بڑھتی جارہی ہے ۔پہلے وزراء کی جانب سے بیانات سامنے آرہے تھے کہ مذاکرات ضروری ہیں اور اس پر سوچنا چاہئے تاکہ مثبت راستہ نکل آئے مگر برف پگھلنے ہی میں نہیں آ رہی ۔چند روز قبل شہباز شریف کی مسلم لیگ فنکشنل کے رہنماء سے ملاقات کے بعد یہ امید کی جارہی تھی کہ شاید کوئی راستہ نکل آئے مگرفی الحال معاملات جوں کے توں ہیں۔ حکومتی حلقوں کی جانب سے یہ بات ہر وقت سامنے آتی رہی ہے کہ شہبازشریف بات چیت کیلئے تیار ہیں اور وہ نوازشریف سے الگ بیانیہ رکھتے ہیں ۔
ملک میں ایک تسلسل کے ساتھ حکمرانوں کارویہ چلتا آرہا ہے کہ جو بھی بحرانات ہوتے ہیں اسے ماضی کی حکومتوںکے کھاتے میں ڈال کر مستقبل کے سبز باغ دکھاکر عوام کو خوشحالی کے سہانے خواب دکھائے جاتے ہیں ۔کسی ایک دور میں یہ نہیں دیکھا گیا کہ حکمرانوں نے اپنی ناقص پالیسیوں اور کوتاہیوں کا اعتراف کرتے ہوئے وجوہات عوام کے سامنے لائے ہوں البتہ یہ ضرور دیکھنے کو ملا ہے کہ حکمرانوں نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ قرضے یہ کہہ کر لئے کہ بحران سے نکلنے کیلئے قرض لینا مجبوری ہے ۔یہی قرض عوام پر کئی ادوار سے مرض بن کر مختلف مسائل اور پریشانی کی وجہ بن چکی ہے۔
بلوچستان معاشی ترقی کے اعتبار سے ملک کے دیگرصوبوں کی نسبت بہت پیچھے ہے بلکہ اس دوڑمیںشامل نہیں کہ کہاجائے مختلف ایسے منصوبوں سے شہری ودیہی علاقوںمیں ترقی کا جال بچھادیاجائے گا جو محدود مدت کے اندر مکمل ہوجائینگے اور اس سے عام لوگوں کو فائدہ پہنچے گا۔ المیہ یہ ہے کہ کوئٹہ جو صوبے کا دارالحکومت ہے یہاں پر سڑکوں کا بہترین نظام تک موجود نہیں جس کی وجہ سے ٹریفک کا مسئلہ گھمبیر شکل اختیار کرچکا ہے۔ کوئٹہ پیکج کے تحت سڑکیں، انڈرپاسز،پُل ، پارکنگ پلازے تعمیر ہونے تھے مگر یہ منصوبے سرے سے شروع نہیں ہوئے ۔
عالمی وباء کورونا کے سبب دنیا میں 8 کروڑ 20 لاکھ 7 ہزار سے زائد افراد متاثر ہوئے جبکہ 17 لاکھ 57 ہزار 640 اموات ہو چکی ہیں۔دنیا میں کورونا کے 5 کروڑ 64 لاکھ 71 ہزار سے زائد مریض صحت یاب ہو چکے اور 2 کروڑ 19 لاکھ 78 ہزار سے زائد زیر علاج ہیں۔امریکہ میں کورونا کی صورتحال سب سے زیادہ خوفناک ہے جہاں 3 لاکھ 38 ہزار 263 اموات ہو چکی ہیں اور ایک کروڑ 92 لاکھ 10 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔بھارت کورونا کیسز کے اعتبار سے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔
حکومت اوراپوزیشن کے درمیان موجود تناؤ کے دوران حکومتی حلقوں کی جانب سے یہ بات سامنے آتی رہی ہے کہ شہباز شریف مذاکرات کے حوالے سے تیار ہیں جبکہ اس سے قبل بھی شہبازشریف کا نام اس حوالے سے شیخ رشید لیتے رہے ہیں کہ شہبازشریف ٹکراؤ نہیںچاہتے بلکہ درمیان کا راستہ اختیار کرتے ہوئے بات چیت کے ذریعے معاملات کو افہام وتفہیم سے حل کرنے کے ہامی ہیں اور شہباز شریف سے رابطوں کے متعلق بھی متعددبار باتیں سامنے آچکی ہیں مگر اس حوالے سے مسلم لیگ ن نے ہمیشہ بات چیت یا بیک ڈور ملاقاتوںکی تردید کی ہے۔
جمعیت علماء اسلام نے مولانا محمد خان شیرانی اور حافظ حسین احمدکو پارٹی سے نکال دیا۔ اطلاعات کے مطابق جمعیت علمائے اسلام کی مجلس عاملہ کا اسلام آباد میں اجلاس ہوا جس میں مولانا محمد خان شیرانی،حافظ حسین احمد، مولاناگل نصیب خان اور مولاناشجاع الملک کوپارٹی سے نکالنے کا فیصلہ کیا گیا۔ مجلس عاملہ نے نظم وضبط کمیٹی کی سفارشات پر متفقہ فیصلہ کیا۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اتحاد اپنی موت آپ مرگیا، استعفے دینے والے اب استعفوں سے بھاگ رہے ہیں۔ اسلام آباد میں حکومتی و پارٹی ترجمانوں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم خود اختلافات کا شکار ہے، اپوزیشن احتساب سے بھی بھاگ رہی ہے، مولانا فضل الرحمان پیسوں اور جائیدادوں کا حساب دیں۔ اجلاس کے شرکاء نے کہا کہ مریم نواز نے پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں کی ساکھ ختم کردی ہے، آج بھی 2 ایم این ایز نے استعفیٰ دیا پھر غائب ہوگئے۔