شہر کی خوبصورتی کو بحال کرنے کیلئے مختلف منصوبوں کے اعلانات کئے گئے جن میں سڑکیں، پْل، انڈرپاسز، پارکنگ پلازے، روڈپارکنگ سمیت تفریح گاہوں کا قیام شامل تھا۔ کوئٹہ کے بڑھتے ہوئے مسائل کے پیش نظر کوئٹہ پیکج کا اعلان کیا گیا جس کیلئے اربوں روپے بھی مختص کئے گئے۔ کوئٹہ پیکج کے تحت ایئرپورٹ روڈ، سریاب کی مختلف سڑکوں اور سبزل روڈ کی کشادگی بھی شامل ہے۔ کوئٹہ پیکج کے بیشتر منصوبے ابھی تک تعطل کا شکار ہیں بعض منصوبوں کا سرے سے آغاز تک نہیں کیا گیا، کوئٹہ شہر جو 1935 کے ہولناک زلزلے کی وجہ سے تباہ ہوگیا تھا اس کی دوبارہ تعمیر اُس دور کی آبادی کے تناسب سے کی گئی تھی جو 50 ہزار نفوس پر مشتمل تھی مگر آج شہر کی آبادی 23لاکھ تک پہنچ چکی ہے اور اسی طرح شہر ی ضروریات بھی بہت بڑھ گئیں ہیں۔ کوئٹہ شہر میں اس وقت سہولیات کا فقدان ہے۔
آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے گیس 221 فیصد مہنگی کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔اوگرا نے یکم جنوری سے گیس کی قیمتوں میں اضافے کی تجویز وزارت پٹرولیم کو ارسال کر دی ہے۔سمری میں سوئی ناردرن سسٹم پر گیس کی اوسط قیمت میں 82 روپے اور سوئی سدرن کے لیے 24 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ اوگرا نے روٹی تندوروں کے لیے گیس 221 فیصد، کمرشل سیکٹر کے لیے 31 فیصد اور فرٹیلائزر سیکٹر کے لیے 153 فیصد تک مہنگی کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔اس سے قبل پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا تھا،پیٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمتیں بڑھ جانے کی وجہ سے مہنگائی میں بے تحاشہ اضافہ ہوا۔اسی طرح دواؤں کی قیمتوں میں چندماہ کی مختصر مدت میں بے تحاشا اضافہ کیا گیاجس سے ادویات غریب عوام کی پہنچ سے دور ہو گئیں۔ ملک میں مہنگائی کا ایک طوفان امڈ آیا ہے۔ پٹرول اور گیس کے بعد بجلی کی قیمتیں بھی مہنگی کر دی گئیں تھیں۔
بلوچستان کی سیاسی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ یہاں اکثر مخلوط حکومت بنتی آئی ہے۔ ایسی صورت میں نظام کی بہتری کی گنجائش کم ہی رہتی ہے کیونکہ پھر شخصی مفادات زیادہ اہمیت اختیار کرتے ہیں۔ پنجاب،سندھ اور کے پی کے کی نسبت بلوچستان میں سیاسی ڈھانچہ یکسر مختلف رہا ہے۔ بلوچستان کے اسی سیاسی کلچر نے پسماندگی اور کرپشن کو دوام بخشااور اس طرح صوبہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہا۔اگر ستر سالہ تاریخ کے دوران ترقیاتی اسکیموں کا جائزہ لیاجائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ ترقیاتی فنڈز شخصیات کی خواہشات کے مطابق خرچ کئے گئے اور عوامی مفادات اور ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی کام نہیں ہوا جس کی وجہ سے بلوچستان کے عوام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں نوجوان آج بھی بیروزگاری کا شکار ہیں یہی وجہ ہے کہ عوام سیاسی جماعتوں سے شدید مایوس ہوگئے ہیں۔
گزشتہ روز قلات میں گیس کی بندش کے خلاف سیاسی وسماجی حلقوں کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا، مظاہرین کا کہنا تھا کہ اس وقت قلات میں گیس مکمل بند ہے، لوگ مجبوراََ نقل مکانی کررہے ہیں، قلات بلوچستان کا سب سے سرد ترین علاقہ ہے جہاں درجہ حرارت منفی بارہ سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے۔ عوام گیس و بجلی کے محکموں کے رحم کرم پر ہیں۔ قلات میں بنیادی مسائل کے حل کیلئے ہم میدان میں نکلے ہیں احتجاجی مظاہرہ، ریلی نکال کر بیانات جاری کئے مگر مسائل جوں کے توں ہیں بارہا احتجاج ریکارڈ کرانے کے باوجودبھی اس پر توجہ نہیں دی جارہی،انہوں نے کہا کہ گرینڈ الائنس نے مسائل کے حوالے سے سیاسی اورقبائلی عمائدین، عوامی نمائندوں اور آفیسران سے جلد ملاقات اور رابطے کا فیصلہ کیا ہے۔مظاہرین کا کہنا تھا کہ ہمارا احتجاج حقوق کے حصول اور مسائل کے حل تک جاری رہے گا، ہفتہ وار احتجاجی مظاہرہ کرکے احتجاج ریکارڈ کرائینگے، اگلے اجلاس میں قومی شاہراہ پر پہیہ جام اور شٹرڈاؤن کے حوالے سے مشاورت کرکے احتجاج کو مزید وسعت دینگے۔
افغانستان کے صوبے غزنی میں طالبان کے حملے میں 23 افغان فوجی ہلاک اور کئی زخمی ہو گئے۔افغان میڈیا کے مطابق طالبان کی جانب سے افغانستان کے مرکزی صوبے غزنی کے ضلع قارا باغ میں حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں 23 فوجی ہلاک ہوئے۔
لاہورپی آئی سی سانحہ ملک کی بدترین واقعات میں شمار ہوچکا ہے کیونکہ ایک ایسے طبقہ نے اسپتال پر حملہ کیا جو قانون کی بالادستی کیلئے خدمات سرانجام دیتا رہا ہے اور جب قانون کے رکھوالے ہی قانون کو ہاتھ میں لیتے ہوئے ایسا اقدام کریں جو پوری دنیا میں ملک کی جگ ہنسائی کا سبب بنے تو یقینا وہ ناقابل برداشت ہے ویسے بھی بڑی بڑی جنگوں میں اسپتالوں کو نشانہ بنانا جنگی قوانین کی خلاف ورزی قرار دی جاتی ہے کیونکہ اس میں نہتے شہریوں اور بیماروں کا علاج ہوتا ہے مگر بدقسمتی سے وکلاء نے ڈاکٹرزکے ساتھ اپنی جنگ کے دوران اسپتال کو نشانہ بنایا اور اسپتال پر دھاوا بول دیا جس کی ہر سطح پر مذمت کی جارہی ہے کیونکہ کسی بھی مہذب معاشرے میں ایسے عمل کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں تشدد کا عنصر بڑھتا جارہا ہے،برداشت کا مادہ ختم ہوتاجارہا ہے جب چاہے کسی بھی ادارے پر حملہ آور ہونا یا پھر املاک کو نقصان پہنچانا ایک معمول بن چکا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ رواں برس چار کروڑ بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جائیں گے۔وفاقی دارالحکومت میں انسداد پولیو کی قومی مہم کا آغاز کرتے ہوئے وزیراعظم نے بچوں کوپولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے۔اس موقع پر انہوں نے کہا کہ انسداد پولیو کی قومی مہم میں 2 لاکھ 60 ہزار ورکرز حصہ لے رہے ہیں، ہم سب نے مل کر ملک سے پولیو کا خاتمہ کرنا ہے۔عمران خان نے والدین کو تلقین کی کہ بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائیں کیونکہ یہ ان کی ذمہ داری ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ ملک کے کئی شہروں سے آج بھی پولیو کے کیسز سامنے آ رہے ہیں، پولیو پر قابو نہ پایا گیا تو عالمی سطح پر ہمارے لیے مسائل پیدا ہوں گے۔واضح رہے کہ پولیو کے عالمی ادارے نے پاکستان کے پولیو پروگرام کی کارکردگی پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے گزشتہ دنوں ایک رپورٹ جاری کی تھی جس کے مطابق رواں سال دنیا کے 80 فیصد پولیو کیسز پاکستان سے رپورٹ ہوئے۔
لاہور میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ہنگامہ آرائی کے ملزم وکلاء کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔بدھ کے روز ہسپتال پر دو سو سے زائد وکلاء نے دھاوا بول کر وہاں توڑ پھوڑ کی تھی اور سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچایا تھا۔پولیس نے جمعرات کی دوپہر 46 ملزمان وکلاء کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج عبدالقیوم خان کے سامنے پیش کیا۔عدالت نے مختصر سماعت کے بعد وکلا ء کو عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم دیا۔خیال رہے کہ چند روز قبل چند وکلاء نے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں علاج کے بعد ادویات کی مفت فراہمی کا مطالبہ کیا تھا،وہ پورا نہ ہونے کی وجہ سے وکلاء اور ہسپتال انتظامیہ کے درمیان جھگڑاہواتھا۔بدھ کو انتظامیہ اور وکلا ء کے درمیان مذاکرات ہونے تھے تاہم وکلا ء گروہ کی شکل میں ہسپتال آئے اور دھاوابول دیا۔
ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے پاکستان میں رواں مالی سال کے دوران مہنگائی کی شرح میں اضافے کا امکان ظاہر کیا ہے۔اے ڈی بی کی پاکستان کی معیشت سے متعلق رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 30 جون 2019 کو ختم ہونے والے گزشتہ مالی سال کے دوران پاکستان کی معیشت میں ترقی کی شرح انتہائی گر کر 3 اعشاریہ 3 فیصد رہی تاہم اب رواں سال پاکستان کی معیشت مستحکم ہو رہی ہے۔
ملک کے عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنا حکمرانوں کی ذمہ داری ہے تاکہ عوام کو ہرقسم کا ریلیف مل سکے مگر ساتھ ہی مرکزی حکومتوں کو یہ بات بھی ذہن نشین کرنی چاہئے کہ تمام صوبوں کے عوام کو یکساں ترقی میں شامل کرنا ان کے فرائض میں شامل ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں چھوٹے صوبوں کو ہمیشہ بہترین سہولیات محروم رکھا گیا ۔ بلوچستان اس کی ایک بڑی اور واضح مثال ہے یہاں پر اسپتال، تعلیم،سفری سہولیات عوام کو میسر نہیں روزگار تو دور کی بات ہے۔