وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے صدیق بلوچ میڈیا اکیڈمی کا سنگ بنیاد رکھ دیا،صدیق بلوچ میڈیا اکیڈمی کا مقصد صحافتی وعلمی سرگرمیوں کو فروغ دینا ہے۔وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان عالیانی نے سنگ بنیاد رکھنے کے موقع پر بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ صدیق بلوچ اکیڈمی میں صحافتی نیوزیم بھی تعمیر کی جائے گی تاکہ بلوچستان کی صحافت میں گراں قدر خدمات انجام دینے والے اداروں اور شخصیات کے پورٹریٹ رکھے جاسکیں جو نوجوانوں کیلئے علمی حوالے سے فائدہ مند ثابت ہو۔وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہاکہ موجودہ حکومت ہر شعبہ کی بہتری کیلئے پْرعزم ہے تاکہ صوبہ سے پسماندگی کا خاتمہ یقینی ہوسکے۔تقریب میں صوبائی وزراء ظہور بلیدی، میرضیاء لانگو، نصیب اللہ مری، عبدالخالق ہزارہ،بشریٰ رند،صدر پریس کلب کوئٹہ رضا الرحمان، جنرل سیکریٹری ظفر بلوچ سمیت سینئر صحافیوں اورعہدیداران نے شرکت کی۔واضح رہے کہ صوبائی حکومت نے مالی سال 2019-20 کے بجٹ میں لالاصدیق بلوچ میڈیا اکیڈمی کے قیام کیلئے تین کروڑ روپے مختص کئے تھے جوکہ ایک غیر معمولی اقدام ہے جسے صحافتی، ادبی وسیاسی حلقوں سمیت عوام میں زبردست پذیرائی مل رہی ہے۔
بلوچستان میں غذائی قلت کی بنیادی وجہ شدید خشک سالی ہے رواں سال کے دوران صوبے کے نوے فیصد علاقے قحط سالی کا شکار ہوئے تھے جس سے ماں اور بچوں کی صحت شدیدمتاثر ہوگئی تھی۔بلوچستان میں یہ سلسلہ 90ء کی دہائی کے بعد شروع ہوا ہے تاہم کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے صورتحال انتہائی گھمبیر شکل اختیار کرتی گئی،اگر پیشگی اس پر منصوبہ بندی کی جاتی تو صورتحال اس قدر تشویشناک نہ ہوتی۔ کسی بھی شہر،علاقے یا کمیونٹی میں اگر پندرہ فیصد بچوں میں غذائی قلت پائی جائے تو وہاں ایمرجنسی کی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے،صوبے میں بچوں میں غذائی قلت کی کئی وجوہات ہیں جن میں غربت، پینے کیلئے صاف پانی کی عدم دستیابی، مناسب خوراک کی کمی،تعلیم اور آگاہی کا نہ ہونا شامل ہے جن سے بچوں کی صحت متاثر ہوتی ہے۔
بلوچستان میں غذائی قلت کی بنیادی وجہ شدید خشک سالی ہے رواں سال کے دوران صوبے کے نوے فیصد علاقے قحط سالی کا شکار ہوئے تھے جس سے ماں اور بچوں کی صحت شدیدمتاثر ہوگئی تھی۔بلوچستان میں یہ سلسلہ 90ء کی دہائی کے بعد شروع ہوا ہے تاہم کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے صورتحال انتہائی گھمبیر شکل اختیار کرتی گئی،اگر پیشگی اس پر منصوبہ بندی کی جاتی تو صورتحال اس قدر تشویشناک نہ ہوتی۔ کسی بھی شہر،علاقے یا کمیونٹی میں اگر پندرہ فیصد بچوں میں غذائی قلت پائی جائے تو وہاں ایمرجنسی کی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے،صوبے میں بچوں میں غذائی قلت کی کئی وجوہات ہیں جن میں غربت، پینے کیلئے صاف پانی کی عدم دستیابی، مناسب خوراک کی کمی،تعلیم اور آگاہی کا نہ ہونا شامل ہے جن سے بچوں کی صحت متاثر ہوتی ہے۔رواں سال شدید قحط سالی کے پیش نظر محکمہ صحت بلوچستان نے عالمی ادارے یونیسیف کے تعاون سے غذائی قلت کی صورتحال کا جائزہ لینے اور اقدامات کیلئے ہنگامی بنیادوں پر متاثرہ بچوں کی اسکریننگ کا فیصلہ کیا جس کے بعد گزشتہ برس دسمبر کے دوران پہلے مرحلے میں کوئٹہ،پشین اور قلعہ عبداللہ میں اسکریننگ کا عمل شروع کیا گیا۔
سابق صدر و آرمی چیف جنرل (ر) پرویزمشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ رکوانے کیلئے وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی ہے۔وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے دائر درخواست میں اسلام آباد کی خصوصی عدالت کو 28 نومبر کو کیس کا فیصلہ سنانے سے روکنے کی استدعا کی گئی ہے۔درخواست بیرسٹر سلمان صفدر کے ذریعے دائر کی گئی ہے۔اپنی درخواست میں وزارت داخلہ نے مؤقف اپنایا ہے کہ سنگین غداری کیس میں پرویزمشرف کے شریک ملزمان کو ٹرائل میں شامل ہی نہیں کیا گیا، پراسیکیوشن ٹیم کو 23 اکتوبر کو ڈی نوٹیفائی کیا گیا مگر 24 اکتوبر کو اس نے بغیر اختیار کے مقدمہ کی پیروی کی۔
بلوچستان جوہر شعبہ زندگی میں دیگر صوبوں کی نسبت پیچھے ہے اس کی بنیادی وجہ یہاں شعبوں پر سرمایہ کاری کانہ ہونا ہے، تعلیم یافتہ نوجوانوں کا دارومدار سرکاری ملازمت پرہے کسی بھی محکمہ کیلئے جب آسامیوں کا اعلان کیا جاتا ہے تو اعداد وشمار سے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کتنی تعداد میں باصلاحیت،ہونہارنوجوان تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود روزگار سے محروم ہیں۔ مگر شکوہ کس سے کیا جائے کہ سرکاری محکموں کے علاوہ دیگر شعبوں میں روزگار کے مواقع نوجوانوں کیلئے کیوں پیدا نہیں کئے جاتے۔ بہرحال یہ دعوے ہر دور میں دیکھنے کو ملتے ہیں کہ بلوچستان میں ترقی کے نئے دور کا آغاز ہوچکا ہے، مختلف شعبوں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کیلئے پالیسیاں بنائی جارہی ہیں،وفاقی اور صوبائی حکومت سنجیدگی کے ساتھ بلوچستان کی ترقی اور خوشحالی پر خاص توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے محض طفل تسلیاں دی جارہی ہیں کسی ایک آدھ شعبہ کی مثال دی جائے جہاں روزگار پیدا کرنے کیلئے سرمایہ کاری کی گئی ہو، جبکہ دو سالوں کے دوران اتنے نوجوانوں کو روزگار فراہم کی گئی ہے اور آنے والے دوسالوں میں اس کی شرح کتنی ہوگی چونکہ کچھ ہے نہیں تو کس طرح سے اعداد وشمار دیئے جاسکتے ہیں البتہ دعوے ضرور کئے جاسکتے ہیں جو ہر حکومت وقت کا وطیرہ رہا ہے اور روایتی طرز حکمرانی کا حصہ بھی۔
سی پیک منصوبہ پر امریکی بیان نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے جہاں ایک طرف امریکہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتا دکھائی دیتا ہے، وہیں پاکستان کو ہمدردانہ طور پر سی پیک سے دوررہنے کا بھی مشورہ دے ڈالا ہے۔ اس بیان سے یہ واضح ہوچکا ہے کہ سی پیک سے امریکہ خوش نہیں ہے کیونکہ ہر ذی شعور شخص یہ بات جانتا ہے کہ خطے میں تھانیداری کی جنگ چل رہی ہے اور کوئی سپر پاور دوسرے بڑے ملک کو معاشی یا دفاعی حوالے سے طاقتور دیکھنا نہیں چاہتا۔ البتہ سی پیک کو فی الحال ایک معاشی اسٹریٹیجی کے طور پر دیکھا جارہا ہے مگر امریکہ نے اس کی دفاعی اسٹرٹیجی کی طرف اشارہ دیا ہے جس سے وہ خطے میں چینی معاشی سرگرمیوں کو مزید آگے بڑھتا نہیں دیکھنا چاہتااورپاکستان چین تعلقات کو معاشی حوالے سے مستحکم ہونے پر بھی نالاں دکھائی دے رہا ہے۔ مگر تعجب کی بات ہے کہ امریکہ خود ایک سپر پاور کے طور پر پاکستان میں کونسی بڑی سرمایہ کاری کی ہے جس کی ایک بہترین مثال دی جاسکے البتہ یہ ضرور ہے کہ امریکہ کو جب بھی جنگی حالات میں پاکستان کی ضرورت پیش آئی تو پاکستان کو فرنٹ لائن کا اتحادی قرار دے دیا۔
ملک میں شفاف احتساب کے متعلق سب متفق دکھائی دیتے ہیں سیاسی جماعتوں سے لیکر حکمران، اپوزیشن جماعتیں یہاں تک عوام بھی یہی بات کرتی ہے کہ ملک کو کرپشن سے پاک کیاجائے مگر یہ اتنا آسان معاملہ نہیں کہ بیک وقت سب پر ہاتھ ڈال کر پیسہ قومی خزانے میں منتقل کیا جائے۔ حقائق کی بنیاد پر ملک میں جس دن احتساب شروع ہوا تو شاید ہی کوئی بچ سکے ہمارا نظام اس قدر کرپٹ ہوچکا ہے کہ عام لوگ بھی اس میں مجبوری کے تحت پھنس کر رہ گئے ہیں سیاسی جماعتوں کے قائدین پر اربوں روپے کے کرپشن کے الزامات ہیں تو عوام پر بجلی چوری، گیس چوری کی الزامات ہیں مگر یہ تمام مسئلہ نظام پر ہی آکر رک جاتا ہے کہ آپ ملک میں کس طرح کا نظام چاہتے ہیں تاکہ عام لوگ بھی مخلصانہ اور ایمانداری کے ساتھ وفاداری نبھائیں کیونکہ یہاں حلف اٹھاکر جو کام کیاجاتا ہے اس کی مثالیں خود سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر اپنے بیانات کے ذریعے دیتے ہیں اور یہ سلسلہ دہائیوں سے چلتا آرہا ہے البتہ تبدیلی نہیں آئی۔
پاکستان دنیا بھرمیں پولیو جیسے خطرناک موذی مرض کے حوالے سے سرفہرست آرہا ہے اس وقت پاکستان اور افغانستان وہ ممالک ہیں جہاں پولیو کے وائرس موجود ہیں جبکہ رواں سال تیزی کے ساتھ پولیو کیسز رپورٹ ہوئے ہیں باوجود اس کے کہ مسلسل پولیو مہم بھی جاری ہے مگر وائرس کی روک تھام نہیں ہورہی، اس کی ایک اہم وجہ پولیو ویکسیئن کے خلاف منفی پروپیگنڈہ ہے۔بغیر کسی جانکاری اور تحقیق کے عوام منفی پروپیگنڈوں کا شکار ہوجاتی ہے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ والدین اپنے بچوں کو قطرے پلانے سے انکارکرتے ہیں افسوس کا عالم تو یہ ہے کہ جو عناصر ملک کے بچوں کی زندگی کے ساتھ کھیل رہے ہیں ان کی غلطیوں کو فراموش کرکے قطرے پلاکر شوبازی کی جاتی ہے جس کی واضح مثال رواں سال پشاور میں دیکھنے کو ملا جہاں چندمعصوم بچوں کو ڈرامائی انداز میں پولیو قطرے پلاکر تشویش پھیلائی جاتی ہے پھر سونے پہ سہاگا کہ ہماری میڈیا نے بھی حقائق جانے بغیر اس خبر کی بھرپور انداز میں تشہیر کردی حالانکہ ذرائع ابلاغ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ تمام حقائق کو جاننے کے بعد خبر کو عوام تک پہنچائے کیونکہ یہ اہم ذمہ داری کاکام ہوتا ہے کہ لوگوں کو صحیح معلومات فراہم کی جائیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیراعظم عمران خان کے بیان پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم طاقت ور کا طعنہ ہمیں نہ دیں، جس کیس کا طعنہ وزیراعظم نے ہمیں دیا اس کیس میں باہر جانے کی اجازت وزیراعظم نے خود دی، اس معاملے کا اصول محترم وزیراعظم نے خود طے کیا ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ ہمارے سامنے صرف قانون طاقتور ہے کوئی انسان نہیں، اب عدلیہ آزاد ہے، ہم نے دو وزرائے اعظم کو سزا دی اور ایک کو نااہل کیا، ایک سابق آرمی چیف کا جلد فیصلہ آنے والا ہے۔انہوں نے کہاکہ وزیراعظم صاحب کا اعلان خوش آئند ہے مگر ہم نے امیر غریب سب کو انصاف فراہم کرنا ہے، ججز اپنے کام کو عبادت سمجھ کر کرتے ہیں، ججوں پر اعتراض کرنے والے تھوڑی احتیاط کریں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعظم چیف ایگزیکٹو ہیں اور ہمارے منتخب نمائندے ہیں، وزیراعظم کو اس طرح کے بیانات دینے سے خیال کرنا چاہیے۔
ایران میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف گزشتہ چند روزکے دوران احتجاج میں شدت دیکھنے کو مل رہی ہے اطلاعات کے مطابق احتجاجی مظاہروں کے دوران سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے اب تک 36 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ ایران میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 50 فیصد تک اضافہ کردیا گیا ہے۔ مہنگائی کے خلاف عوام سڑکوں پر نکل آئے اور شدید احتجاج کیا۔ دارالحکومت تہران سے شروع ہونے والا یہ احتجاج اب مختلف شہروں اور قصبات تک جا پہنچاہے،متعدد مقامات پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں اور سیکیورٹی اہلکاروں نے احتجاج کو سختی سے کچلنے کی کوشش کی۔ فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے براہ راست فائرنگ کی اور آنسو گیس کا استعمال بھی کیا جس کے نتیجے میں 4 روز کے دوران 36 افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہوچکے ہیں،ایران میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف احتجاج کرنے والے تقریباً ایک ہزار افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔