سیاست کامقصد معاشرے میں بہتری لانا ہے جس کے اپنے اصول ہیں البتہ سیاسی فیصلوں میں ہمیشہ عوامی خواہشات اور ترجیحات کو اہمیت دینا ضروری اور فرض سمجھا جاتا ہے مگر بعض اوقات ایسے سیاسی فیصلے اور راستے اختیارکئے جاتے ہیں جو عوامی خواہشات کے برعکس ہوتے ہیں کیونکہ ان سے سیاسی اہداف حاصل کرنا ہوتا ہے مگر ہمارے یہاں سیاسی مقاصد کو ہمیشہ گروہی بنیاد پرترجیح دی گئی اس لئے ہر وقت سیاسی جماعتوں کی حکمت عملی اور فیصلوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
ملک کی ترقی بغیر استحکام کے ممکن نہیں پاکستان اس وقت بیرونی چیلنجز کا مقابلہ تو کررہا ہے مگر دوسری جانب سیاسی کشیدگی کے باعث اندرونی چیلنجز بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں جو کسی صورت ملک کے وسیع تر مفاد میں نہیں۔ سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے دور حکومت میں اصلاحات پر کام کریں مگر بدقسمتی سے اس جانب کبھی بھی سیاسی جماعتوں نے خاص توجہ مرکوز نہیں کی جس کی نظیر گزشتہ تین دہائیوں کے دوران دیکھنے کو ملتی ہے۔
حکومت کے خلاف احتجاج اور دھرنے کا فیصلہ جب مولانافضل الرحمان کی جانب سے کیا گیا تو اس دوران بارہا جے یوآئی ف کی جانب سے خاص کر یہی بات دہرائی گئی کہ یہ فیصلہ رہبرکمیٹی میں شامل تمام اپوزیشن جماعتوں کی مشاورت کے بعد کیا گیا مگر اس حوالے سے ملک کی دوبڑی جماعتیں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے عملی طور پر کھل کر شرکت کا اظہار نہیں کیا اور جب آزادی مارچ شاہراہوں سے گزری تو محض ان کی جانب سے استقبالیہ چھوٹے کیمپ ہی لگائے گئے جبکہ دونوں جماعتوں کے قائدین بھی کسی مقام پر دکھائی نہیں دیئے البتہ اسلام آباد میں جب مارچ پہنچی تب اپوزیشن جماعتوں کے قائدین آئے، اپنی شرکت ظاہر کی مگر اس کے بعد وہ مسلسل مولانا فضل الرحمان کے ساتھ کنٹینر پر دکھائی نہیں دیئے۔
گزشتہ روز سیندک پروجیکٹ انتظامیہ ایم آر ڈی ایل نے مائننگ ڈپیارٹمنٹ میں کام کرنے والے ایک ملازم کو بغیر نوٹس کے جب فارغ کیا تو کمپنی میں شامل دیگر ملازمین نے اس حوالے سے معلومات لینے کی کوشش کی جس کے جواب میں 30 دیگر ملازمین کو بھی ملازمت سے برطرف کر دیا گیا اورانہیں راتوں رات تفتان منتقل کیا گیا جس پر برطرف ملازمین نے گزشتہ روزاحتجاجاََ پیدل مارچ کرتے ہوئے سیندک کراس پر روڈ بلاک کر کے احتجاج کیا۔
اسلام آباد میں سیاسی دنگل سج گیا ہے جس سے سیاسی ماحول میں گرماگرمی پیدا ہوگئی ہے بہرحال وثوق سے کہا تو نہیں جاسکتا کہ اسلام آباد میں جنگی ماحول پیدا نہیں ہوگا البتہ جلسے کی تقاریر اور اس کے ردعمل کی سرجری کی جائے تو اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ معاملات نازک صورت بھی اختیار کرسکتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی کور کمیٹی نے جمیعت علمائے اسلام کی جانب سے وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر حزب اختلاف نے معاہدے کی خلاف ورزی کی تو سخت ایکشن لیا جائے گا۔
کراچی سے راولپنڈی جانے والی تیز گام ایکسپریس میں پنجاب کے ضلع رحیم یار خان کے قریب آتشزدگی کے باعث 73 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوگئے،حادثے کے بعد بوگیوں سے کئی افراد کی جلی ہوئی لاشیں نکالی گئیں،زخمیوں میں بعض کی حالت نازک ہے جس کے باعث ہلاکتوں میں اضافے کاخدشہ ہے۔ لاشوں اورزخمیوں کو فوری طورپر مقامی ہسپتالوں میں منتقل کر کے ایمر جنسی نافذ کر دی گئی جبکہ وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے کہاہے کہ بوگی میں ایک چولہا اور دو سلنڈر موجود تھے ایک کے پھٹنے سے باقی نے بھی تباہی مچادی، مسافروں کا سامان چیک کرنے کی سہولت صرف بڑے اسٹیشنز پر موجود ہے۔
اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے حکومت کے خلاف احتجاج کا مشترکہ فیصلہ تو کیا گیا تھا مگر آزادی مارچ پنجاب کے جن مقامات سے گزری تھی وہاں پر مسلم لیگ ن کے اہم قائدین کی عدم شرکت سے یہ ثابت ہورہا ہے کہ اس وقت اپوزیشن میں مکمل اتفاق رائے نہیں ہے جبکہ آزادی مارچ میں شریک شرکاء کی تیاریوں سے یہ لگ رہا ہے کہ وہ ایک دن کیلئے نہیں آرہے بلکہ جمعیت کا ارادہ طویل عرصے تک بیٹھنے کا ہے البتہ یہ واضح نہیں کہ ایک مقام پر بیٹھ کر ہی دھرنا دیا جائے گا یا پھر جگہ تبدیل کیا جائے گا۔
بلوچستان یونیورسٹی میں ویڈیو اسکینڈل اور ہراسمنٹ کے معاملے پرگزشتہ روز بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس،جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس عبداللہ بلوچ پرمشتمل دو رکنی بینچ نے جامعہ بلوچستان اسکینڈل سے متعلق کیس کی سماعت کے موقع پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان یونیورسٹی کا معاملہ پورے صوبے کامعاملہ ہے، ہمارے بچے جامعہ بلوچستان میں پڑھتے ہیں،سب کی نظریں تحقیقاتی اداروں اور پارلیمانی کمیٹی پر ہیں،عدالت کسی بھی ادارے پر اثرانداز نہیں ہوگی تاہم آخری فیصلہ عدالت ہی کریگی۔غیر متعلقہ افراد کو فوری طورپر یونیورسٹی اور ہاسٹلز سے بے دخل کیاجائے۔
پاکستان اور بعض دوسرے ممالک کی کوششوں سے افغان طالبان اور امریکا کے درمیان امن مذاکرات جلد بحال ہونے کا امکان ہے۔اس حوالے سے ہونے والی پیش رفت سے آگاہی رکھنے والے سرکاری ذرائع نے بتایا کہ پاکستان سمیت مذاکرات کی بحالی کیلئے کوشش کرنے دیگروالے ممالک چاہتے ہیں کہ افغانستان میں جاری 18 سالہ جنگ کا خاتمہ ہو،افغان طالبان اور امریکا کے درمیان گزشتہ مہینے معاہدہ تکمیل کے آخری مراحل میں تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں امریکی فوجیوں پر مسلسل حملوں کے باعث یہ امن عمل معطل کر دیا۔
وزیر اعظم عمران خان نے مقامی حکومتوں کے نظام پر جلد از جلد عملدرآمد پر زور دیا اور تا کید کی کہ اس سلسلے میں پلان کو مقررہ وقت پر مکمل کیا جائے کیونکہ ہمارے شہر اس وقت تک صحیح نہیں ہو سکتے جب تک ان میں موثر انتظامی نظام قابل عمل نہیں ہوتا۔عمران خان نے ان خیالات کا اظہار آج وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔