ملک میں سیاسی دنگل سجے گا یا اس سے قبل مذاکرات کے ذریعے کوئی درمیانی راستہ نکالا جائے گا،فی الحال مذاکرات کی کامیابی کے حوالے سے امکانات بہت ہی کم نظر آرہے ہیں چونکہ جمعیت علمائے اسلام کی جانب سے وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ سرفہرست ہے اور اب تک وہ اسی مطالبہ پر ڈٹے ہوئے ہیں جبکہ حکومت نے اس حوالے سے دوٹوک جواب دیا ہے کہ دیگر مطالبات پر بات چیت ہوسکتی ہے مگر وزیراعظم کے استعفے پر کوئی بات نہیں ہوگی جس پر وزیراعظم عمران خان بھی اپنا مؤقف دے چکے ہیں کہ وہ استعفیٰ نہیں دینگے جس سے حالات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اپوزیشن کامارچ اسلام آباد کی طرف بڑھے گا تو ایسے میں یقینا تصادم کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔مگر یہ ملک کے وسیع ترمفاد میں نہیں ہوگا۔
ملک میں گزشتہ کئی دہائیوں سے ایک ایسا دوہرانظام چلتا آرہا ہے کہ اسے چیلنج کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے عام لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس اسی نظام کا حصہ ہے۔گزشتہ روز ساہیوال سانحہ میں ملزمان کی بریت کا معاملہ زیر بحث ہے گوکہ عدم شہادت کی بنیاد پر ان ملزمان کو شک کا فائدہ دے کر رہا کردیا گیا ہے مگر اس فیصلہ نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے،وہی لواحقین جو واقعہ کے بعد سراپااحتجاج دکھائی دے رہے تھے اور میڈیا پر انہوں نے کھل کر اس بات کا اظہار کیا تھا کہ انہیں دھمکی آمیز فون موصول ہورہے ہیں یقینا وہ فون اسی کیس سے جڑے ملزمان کے متعلق ہی آرہے تھے۔
ملک میں گزشتہ کئی دہائیوں سے ایک ایسا دوہرانظام چلتا آرہا ہے کہ اسے چیلنج کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے عام لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس اسی نظام کا حصہ ہے۔گزشتہ روز ساہیوال سانحہ میں ملزمان کی بریت کا معاملہ زیر بحث ہے گوکہ عدم شہادت کی بنیاد پر ان ملزمان کو شک کا فائدہ دے کر رہا کردیا گیا ہے مگر اس فیصلہ نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے،وہی لواحقین جو واقعہ کے بعد سراپااحتجاج دکھائی دے رہے تھے اور میڈیا پر انہوں نے کھل کر اس بات کا اظہار کیا تھا کہ انہیں دھمکی آمیز فون موصول ہورہے ہیں یقینا وہ فون اسی کیس سے جڑے ملزمان کے متعلق ہی آرہے تھے۔
وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت گزشتہ روز ہونے والے اجلاس کے دوران دھرنے اور مارچ کے متعلق امور پر غور وخوض کیا گیا جبکہ اپوزیشن سے مذاکرات کرنے والی کمیٹی کے سربراہ پرویز خٹک نے اپوزیشن جماعتوں سے رابطوں کے متعلق وزیراعظم کواعتماد میں لیا، پرویزخٹک نے کہاکہ کوشش کریں گے کہ 27 اکتوبر سے پہلے اپوزیشن کو مذاکرات پرآمادہ کرلیں، امید ہے مولانا فضل الرحمان ہماری بات مان جائیں گے۔
سیاسی جماعتوں کے درمیان کشیدگی آج کی نہیں بلکہ دہائیوں سے چلتی آرہی ہے سابقہ حریف آج اتحادی کے طور پر ایک ساتھ دکھائی دیتے ہیں البتہ سیاسی جماعتوں کی پالیسیاں حالات اوروقت کے تقاضوں کے مطابق تشکیل پاتی ہیں۔موجودہ سیاسی صورتحال بھی ماضی کی عکاسی کرتی دکھائی دیتی ہے بہرحال اختلافات ایک حد تک ہونی چاہئیں تاکہ اس سے منفی تاثر قطعاََ نہ جائے۔
بھارت اپنی جارحانہ روش پر برقرار رہتے ہوئے ایل او سی کی مسلسل خلاف ورزی کرتا آرہا ہے عام آبادی اور نہتے شہریوں کو نشانہ بنارہا ہے جس سے معصوم شہری شہید ہورہے ہیں۔بھارتی انتہاء پسند حکومت کا مکروہ چہرہ بے نقاب ہونے کے بعد من گھڑت اور جھوٹے الزامات کا سہارا لے رہی ہے جبکہ بھارتی میڈیا پروپیگنڈہ مشینری کے طور پر مودی کے احکامات کی تکمیل کرتے ہوئے منفی اور اشتعال انگیز جھوٹ پر مبنی رپورٹنگ کررہی ہے۔
27اکتوبر قریب آتے ہی سیاسی ماحول میں گہماگہمی بڑھتی جارہی ہے، اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے احتجاجی مارچ میں شرکت کی بھرپور حمایت سامنے آرہی ہے جبکہ دھرنے کے متعلق اب تک کچھ بھی واضح نہیں ہے مگر جمعیت علمائے اسلام ف کی جانب سے اسلام آباد میں دھرنے کا اعلان تاحال برقرار ہے۔مسلم لیگ ن، اے این پی اور پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی نے مولانا فضل الرحمان کے ساتھ دھرنے میں شرکت کی یقین دہانی کرائی ہے جبکہ پیپلزپارٹی اس حوالے سے اپنا الگ مؤقف رکھتی ہے۔
بلوچستان کی قومی شاہراہوں پر چلنے والی بیشتر گاڑیوں میں پیٹرول اور ڈیزل لوڈ ہوتے ہیں جو ایرانی سرحد سے لیکر ملک کے اندرونی حصوں تک ترسیل کی جاتی ہے گزشتہ کئی برسوں سے یہ سلسلہ جاری ہے اس دوران ہولناک حادثات بھی رونما ہوچکے ہیں جس میں سینکڑوں کی تعداد میں لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں حد یہ ہے کہ مسافر کوچز کو بھی اب پیٹرول اور ڈیزل کی اسمگلنگ کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔
جمعیت علمائے اسلام ف کی جانب سے احتجاجی دھرنا اور مارچ کو حتمی شکل دینے کیلئے پہلے اپوزیشن جماعتوں پر اتفا ق نہیں ہورہا تھا مگر مولانا فضل الرحمان نے احتجاج اور اسلام آباد لاک ڈاؤن کی تاریخ میں توسیع کا حتمی اعلان کردیا۔ بہرحال اس وقت سب کی نظریں جمعیت علمائے اسلام ف کے احتجاج پرلگی ہوئی ہیں اورمسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی بھی اب اس احتجاج میں شامل ہوگئی ہیں۔
بلوچستان میں روزانہ ٹریفک حادثات میں قیمتی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں غیر محفوظ شاہراہیں تو ایک الگ مسئلہ ہیں مگر چلتے پھرتے بم گاڑیوں کی روک تھام کے حوالے سے بھی حکومتی سطح پر اقدامات دکھائی نہیں دیتے جس کے باعث خطرناک حادثات میں بڑے سانحات رونما ہوتے ہیں جن میں درجنوں لوگ جان سے دھوبیٹھتے ہیں۔