بلوچستان میں ایسی صورتحال نہیں تھی کہ این جی اوز کی بھرمار،غیر سرکاری تنظیموں کا وجود میں آنا،پھر ان میں بھرتیوں کاعمل اور پُرکشش تنخواہیں، یہ تمام عوامل افغان جنگ کے بعد دیکھنے کو ملے، اس سے نہ صرف بلوچستان بلکہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی تیزی سے کام کیا گیا جن کی کوئی مانیٹرنگ نہیں کی گئی۔
ملک میں اقتدار کی رسہ کشی نے سیاست پر انتہائی منفی اثرات مرتب کئے ہیں، اقتدار میں کوئی بھی جماعت آجائے اس کی سب سے اہم ذمہ داری ملکی معیشت کو بہترکرنا، عوام کوروزگارکی فراہمی کو یقینی بنانا، عوام کے بنیادی مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا، عوام کوتمام تر بنیادی سہولیات ان کی دہلیز تک پہنچانا شامل ہے جبکہ ایسی خارجہ پالیسی تشکیل دیناجو ریاست کے وسیع تر مفاد میں ہو اور اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی جماعتیں اقتدار یااپوزیشن میں ہوں ان کیلئے ریاست ماں جیسی ہی ہے۔
چیئرمین سینیٹ کے خلاف جب سے عدم اعتماد کی تحریک لانے کافیصلہ اپوزیشن کی جانب سے کیا گیا ہے اسی روز سے بلوچستان حکومت کے متعلق بھی افواہیں گشت کرنے لگی ہیں کہ وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف بھی عدم اعتماد کی تحریک لانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں جس کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔
صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے مختلف علاقوں میں مال مویشی کی منڈیاں سج گئی ہیں۔ملک بھر سے بڑی تعداد میں مال مویشیوں کے کھیپ در کھیپ منڈیوں میں لائے جارہے ہیں۔مویشی منڈی میں اکثر بیوپاریوں کو شکایات رہی ہیں کہ ماضی میں عید قرباں کے موقع پر ان سے بھتہ وصول کیاجاتا رہا ہے، 5ہزار سے لے کر10 ہزار روپے تک بھتہ وصولی جیسے کوئی بات ہی نہیں،اس گھناؤنے عمل کو روکنا تو کجا کوئی پوچھ گچھ بھی نہیں کی جاتی۔ اندرون ملک سے مال مویشی لانے والے ٹرکوں سے وصولی کے نام پر من مانا ٹیکس بھی لیاجاتارہاہے۔
25جولائی کو موجودہ حکومت کو بنے ایک سال کا عرصہ مکمل ہوا، اس پورے دورانیہ میں سیاسی ماحول انتہائی گرم رہا۔ شاید ہی ملکی تاریخ میں ایسا پہلے کبھی ہوا ہو۔ اگر حکومتی کارکردگی کے ایک سال کا جائزہ لیا جائے تو اس میں کوئی دورائے نہیں کہ معاشی صورتحال انتہائی خراب ہے، مہنگائی میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے شاید ہی کوئی ایک بھی چیز ایسی ہو جس پر ٹیکس نہیں لگایا گیا ہو۔ ظاہر سی بات ہے مہنگائی کابم عوام پر ہی گرا ہے۔
پاکستان کی سیاسی نفسیات شدت پسندی کی تاریخ نہیں رکھتی، ملک کے تمام علاقوں کے اپنے سماجی روایات رہے ہیں قبائلی علاقوں کی اگر بات کی جائے تو وہاں سرد جنگ کے دوران ایسے حالات بنے کہ لوگوں کو شدت پسند بنایاگیا اور اس طرح سے یہ طول پکڑتا گیا،اس کی جڑیں اس قدر مضبوط ہوگئیں کہ ان کے خلاف سخت ترین آپریشن کیا گیا۔
پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان سیاسی تناؤ اس وقت شدید تھا جب چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخابات ہونے جارہے تھے۔ مسلم لیگ ن بلوچستان سے اپنی پوری اکثریت کھوچکی تھی ماسوائے ایک رکن کے دیگر تمام نے مسلم لیگ ن سے سیاسی طور پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے بلوچستان میں اپنے ہی وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جس میں مسلم لیگ ن، مسلم لیگ ق، بی این پی مینگل، بی این پی عوامی، مجلس وحدت المسلمین شامل تھے۔
وزیر اعظم پاکستان عمران خان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ملاقات میں پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے اہم پیشرفت سامنے آئی ہے۔ امریکی صدارت نے مسئلہ کشمیرکے حل کے لیے ثالثی کی پیشکش کردی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ امید ہے ملاقات کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آئے گی، وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کو خوشگوار دیکھ رہا ہوں۔ دورہ پاکستان کی دعوت دی گئی تو ضرور جاؤں گا۔
گزشتہ روز ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے تھانہ ڈیرہ ٹاؤن کے حدود میں کوٹلہ سیداں پولیس چیک پوسٹ پر نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کی،فائرنگ کے نتیجے میں چیک پوسٹ پر تعینات ایف آر پی پولیس کے دو اہلکاراموقع پر ہی شہید ہوگئے، جنہیں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ٹیچنگ ہسپتال ڈیرہ منتقل کیا گیا، اس دوران دیگر پولیس افسران و اہلکاروں کے علاوہ شہید اہلکاروں کے رشتہ دار او دیگر عام مریض بھی موجود تھے کہ اس دوران ہسپتال کے ٹراما سنٹر کے باہر خود کش بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا جس سے ہر طرف تباہی مچ گئی۔
بلوچستان کے رواں مالی سال کے بجٹ میں شامل جاری اور نئے ترقیاتی منصوبوں پر عملدرآمد اور اس سلسلے میں نئے ترقیاتی منصوبوں کے پی سی ون کو 31 جولائی تک حتمی شکل دینے کے لیے ایک اجلاس منعقدہوا۔ اجلاس میں ترقیاتی منصوبوں پر پیشرفت کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی ہدایات کی روشنی میں روشن بلوچستان، گرین ٹریکٹر اسکیم، گرین بس جیسے اہم منصوبوں کی جلد تکمیل کو یقینی بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔