نڈر،بیباک ،دوٹوک مؤقف رکھنے والے، کسی بھی مصلحت پسندی سے بالاترشخصیت لالہ صدیق بلوچ سے کون واقف نہیں۔ان کی ذات گرامی، ہر دلعزیز شخصیت اور اپنے کام سے لگن کی بنیاد پر ان کے نام سے ملک کے سیاسی،صحافتی اور دیگرمکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد بخوبی آگاہ ہیں۔
پاکستان میں حالیہ انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر پانچ جماعتوں پر مشتمل اتحاد کے رہنماؤں اور کارکنوں نے اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا۔مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے ان انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیتے ہوئے نتائج کو ماننے سے انکار کردیا اورپارلیمانی انکوائری کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ۔
8 اگست 2016ء کو بلوچستان بار کونسل کے صدر ایڈووکیٹ بلال کانسی جب گھر سے نکلے تو منو جان روڈ پر دہشت گردوں نے فائرنگ کرکے انہیں شہید کردیا جسے فوری طور پر سول ہسپتال کوئٹہ لایاگیا ۔
بلوچستان کی سیاست میں شخصیات کی اہمیت اور اثر ہمیشہ رہا ہے جس کی ایک وجہ قبائلی معاشرہ ہے مگر اسی کو بنیاد بناکر نہیں کہاجاسکتا کہ قبائلی معاشرے کی وجہ سے یہاں پارلیمان مضبوط نہیں رہا جس کی ایک جھلک ہمیں 72ء کی دہائی اور اس سے قبل انگریزوں کے خلاف ایک طویل جدوجہد کے طور پر ملتی ہے کہ یہاں کے قبائلی وسیاسی شخصیات نے سرزمین کی بقاء سلامتی اور عوام کیلئے قربانیاں دیں اور ایک پختہ نظریہ کے ساتھ اپنی سیاست کو جاری رکھا۔
بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل نے 1997ء کے انتخابات کے بعد اس بار 7 صوبائی جبکہ تین قومی اسمبلی کی نشستیں حاصل کیں۔ بلوچستان میں جہاں قوم پرستی کی سیاست دم توڑ رہی تھی وہی بی این پی مینگل نے کٹھن حالات کامقابلہ کرتے ہوئے اسے زندہ رکھا جس کیلئے بی این پی مینگل کے سربراہ اختر مینگل نے اس دوران جیل کی صعوبتیں کاٹیں یہاں تک کہ مشرف دور میں انہیں پنجرے میں بند کرکے عدالت میں پیش کیا گیا ۔
عام انتخابات کے بعد بلوچستان میں سب سے زیادہ 15نشستیں لینے والی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی نے حکومت سازی کیلئے رابطہ مہم کا آغاز کیا تو چار آزاد امیدوارو،اے این پی کے تین،بی این پی عوامی کے دو جبکہ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے دو ارکان کی حمایت حاصل کی ۔
اسلام آباد میں مختلف سیاسی جماعتوں کے اجلاس کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے ایوان میں جانے پر اتفاق کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایک مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے۔ اسلام آباد میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے اپوزیشن رہنماؤں کاکہناتھا کہ وہ ان انتخابات کے نتائج کو مسترد کرتے ہیں لیکن ایوان کے اندر اور باہر احتجاج جاری رکھیں گے۔
25جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے بازی مارکر مرکز سمیت پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان میں حکومت سازی کے عمل کو شروع کیا۔ پہلی بار ملک میں ایک ایسی جماعت مرکز اور تینوں صوبوں میں حکومت بنانے جارہی ہے جو تبدیلی کا دعویدارہے امید ہے کہ اس کی حکومت مضبوطی ہوگی جس پر افسر شاہی حاوی نہیں ہوگی۔
2013ء کے عام انتخابات میں جب مسلم لیگ ن کامیاب ہوئی تو اس دوران بھی سیاسی صورتحال یہی تھی سب کی نظریں مخلوط حکومت اور نئے وزیراعلیٰ پر لگی ہوئی تھیں کہ وزیراعلیٰ کون بنے گا اور مخلوط حکومت میں کون کون شامل ہوگا۔
بلوچستان میں نئے وزیراعلیٰ کے چناؤ اور حکومت سازی کے حوالے سے صورتحال اب تک غیر واضح ہے اس امر کے باوجود کہ بلوچستان عوامی پارٹی کو واضح برتری حاصل ہے۔