سیکورٹی اداروں نے ایک بڑی کامیابی حاصل کرتے ہوئے القاعدہ اور لشکر جھنگوی کے دہشت گردی کے نیٹ ورک توڑدیئے اور مجموعی طور پر 94افراد کو گرفتار کرلیا جو دہشت گردی کے واقعات میں ملوث تھے۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو ان دہشت گردوں کے سہولت کار کے طور پر کام کرتے تھے ان میں طالبان، القاعدہ اور لشکر جھنگوی کے تین اہم ترین کمانڈرز شامل ہیں۔ یہ تینوں کمانڈر پاکستان کے اندر ہونے والے تقریباً ہر دہشت گردی کے واقعہ میں ملوث تھے اور وہ ان واقعات کے ماسٹر مائنڈ تھے۔
پی آئی کے ملازمین نے حکمرانوں سے زیادہ ذمہ داری اور محب الوطنی ہونے کا ثبوت دیا اور بغیر کسی شرط کے ہڑتال ختم کردی اور پنجاب کے وزیراعلیٰ سے مذاکرات بھی کئے۔ جبکہ حکمران ہڑتال توڑنے کی کوشش کرتے رہے۔ جلوس پر لاٹھی چارج، آنسو گیس کے گولے برسائے بلکہ یہاں تک سرکاری اہلکاروں کے ذریعے فائرنگ کراکر دو معصوم انسانوں کی جانیں لے لیں۔ دونوں پی آئی اے کے ملازم تھے اور پرامن احتجاج میں شریک تھے۔
شام میں حکومت کے ساتھ سیاسی اختلافات نے خانہ جنگی کا رخ اختیار کرلیا۔ صرف ایک شخص جس کی وجہ سے پورا شام تباہ و برباد ہوگیا۔ ڈھائی لاکھ لوگ ہلاک ہوئے 50لاکھ سے زائد لوگ بے وطن اور مہاجر بن گئے۔ لاکھوں لوگ یورپ کا رخ کررہے ہیں جہاں پر وہ سیاسی پناہ چاہتے ہیں اور امن کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ اگر صرف شخصِ واحد ملک اور قوم کے لئے قربانی دیتا تو پورا شام تباہ و برباد نہیں ہوتا اس سے قبل صدام حسین کی وجہ سے عراق تباہ ہوچکا تھا۔
پاکستان کے تمام حکمرانوں نے اس بات کو کبھی تسلیم نہیں کیا کہ پاکستان ایک وفاقی ریاست ہے اور وفاقی اکائیاں دراصل پورے ملک کے وسائل کے مالک ہیں۔ ان کا کوئی سرکاری اہلکار یا سیاسی رہنماء شریک نہیں ہے۔ ملک غلام محمد گورنر جنرل پاکستان سے لے کر نواز شریف تک تمام حکمران پاکستان کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھتے رہے ہیں، من مانی کارروائی کرتے رہے ہیں اور اس کے وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے رہے ہیں۔
نواز شریف بضد نظر آتے ہیں کہ وہ پی آئی اے کو ضرور فروخت کریں گے ملازمین سے اس معاملے پر بات چیت نہیں ہوگی۔ دوسری جانب حکومت ہڑتال توڑنے کی سرتوڑ کوشش کررہی ہے۔ ابھی تک چند ایک پروازیں چلاچکی ہے۔ پی آئی اے کے ہڑتالی ملازمین کا دعویٰ ہے جہاز اڑانے سے پہلے حفاظتی نقطہ نظر، خصوصاً مسافروں کی سلامتی کو نظر انداز کیا گیا جس کی وجہ سے سعودی عرب میں پی آئی اے پر جرمانہ عائد کیا گیا۔
حکومت بضد ہے کہ پی آئی اے جو ایک قومی اثاثہ ہے اس کو ضرور نیلام کرے گی کیونکہ یہ آئی ایم ایف کا حکم ہے ۔ہوسکے تو حکمران یا اس کے کارندے پی آئی اے خرید کر اربوں ڈالر خود کمانا شروع کردیں۔ البتہ یہ دولت ریاست پاکستان کے پاس نہیں آنی چاہئے۔ یہ تاجر لیگ کا فیصلہ ہے تاجر لیگ کی حکومت کو یہ بڑی غلط فہمی پیدا ہوگئی ہے کہ وہ پی آئی اے کے ملازمین کے اتحاد کو توڑدے گی
پورا بلوچستان حقیقی معنوں میں دنیا سے کٹ کررہ گیا ہے۔ وجہ ہے پی آئی اے اور بسوں کی ہڑتال۔ صرف ٹرین واحد ذریعہ رہ گیا ہے جس کو بلوچستان کے عوام آمدورفت کے لئے استعمال کررہے ہیں۔ ٹرینیں بھی صرف چند ہیں۔ ایک کراچی کے لیے، دوسرے لاہور اور راولپنڈی کے لیے۔ ریلوے کا حال خراب ہے، انجن اتنے پرانے اور ناکارہ ہوگئے ہیں کہ بولان میں خوفناک حادثہ کے بعد ڈرائیوروں نے پرانے انجن چلانے سے انکار کیا جس سے ان کی اور مسافروں کی جانوں کو خطرات لاحق رہتی ہے۔
کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان دیرینہ تنازعہ ہے جو ابھی تک حل طلب ہے۔ بھارت بضد ہے کہ اس کو دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے جبکہ پاکستان اور اس کے عوام کی یہ رائے کہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں ریفرنڈم کرایا جائے جس میں کشمیری عوام کو یہ حق ملنا چاہئے کہ وہ بھارت میں رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ یہ کشمیری عوام کی مرضی ہے۔
گزشتہ دور میں حزب مخالف کے سیاستدانوں اور مزدور رہنماؤں پر یہ الزام لگایا جاتا تھا کہ وہ اشتعال انگیزی میں ملوث ہیں اور اپنے سیاسی اور دوسرے اہداف حاصل کرنے کے لئے اشتعال نگیزی کا حربہ آئے روز استعمال کرتے رہتے تھے۔ مگر آج کل یہ بات حکومت وقت اور اس کے وزراء پر عائد ہوتی ہے جو جلتی آگ پر تیل چھڑکنے کا کام کررہے ہیں اور ملک میں اشتعال پھیلارہے ہیں۔
ریاست پاکستان نے گزشتہ 67سالوں میں بلوچستان میں بنیادی ڈھانچہ تعمیر کرکے نہیں دیا۔ اس وجہ سے پورے صوبے کو سڑکوں کے جال سے جان بوجھ کر محروم رکھا گیا۔ سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے روڈ ٹرانسپورٹ ناپید تھا اور لوگ مجبور اونٹوں اور گدھوں پر سفر کرتے رہے۔ یہ سلسلہ کئی دہائیوں تک چلتا رہا۔ مریض بوڑھے، بچے عورتیں سب مجبوراً اونٹ کی سواری کرتے رہے۔ مریضوں کو اونٹ، گدھوں پر اسپتال پہنچایا جاتا رہا۔