پاکستان کے تمام حکمرانوں نے اس بات کو کبھی تسلیم نہیں کیا کہ پاکستان ایک وفاقی ریاست ہے اور وفاقی اکائیاں دراصل پورے ملک کے وسائل کے مالک ہیں۔ ان کا کوئی سرکاری اہلکار یا سیاسی رہنماء شریک نہیں ہے۔ ملک غلام محمد گورنر جنرل پاکستان سے لے کر نواز شریف تک تمام حکمران پاکستان کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھتے رہے ہیں، من مانی کارروائی کرتے رہے ہیں اور اس کے وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے رہے ہیں۔
نواز شریف بضد نظر آتے ہیں کہ وہ پی آئی اے کو ضرور فروخت کریں گے ملازمین سے اس معاملے پر بات چیت نہیں ہوگی۔ دوسری جانب حکومت ہڑتال توڑنے کی سرتوڑ کوشش کررہی ہے۔ ابھی تک چند ایک پروازیں چلاچکی ہے۔ پی آئی اے کے ہڑتالی ملازمین کا دعویٰ ہے جہاز اڑانے سے پہلے حفاظتی نقطہ نظر، خصوصاً مسافروں کی سلامتی کو نظر انداز کیا گیا جس کی وجہ سے سعودی عرب میں پی آئی اے پر جرمانہ عائد کیا گیا۔
حکومت بضد ہے کہ پی آئی اے جو ایک قومی اثاثہ ہے اس کو ضرور نیلام کرے گی کیونکہ یہ آئی ایم ایف کا حکم ہے ۔ہوسکے تو حکمران یا اس کے کارندے پی آئی اے خرید کر اربوں ڈالر خود کمانا شروع کردیں۔ البتہ یہ دولت ریاست پاکستان کے پاس نہیں آنی چاہئے۔ یہ تاجر لیگ کا فیصلہ ہے تاجر لیگ کی حکومت کو یہ بڑی غلط فہمی پیدا ہوگئی ہے کہ وہ پی آئی اے کے ملازمین کے اتحاد کو توڑدے گی
پورا بلوچستان حقیقی معنوں میں دنیا سے کٹ کررہ گیا ہے۔ وجہ ہے پی آئی اے اور بسوں کی ہڑتال۔ صرف ٹرین واحد ذریعہ رہ گیا ہے جس کو بلوچستان کے عوام آمدورفت کے لئے استعمال کررہے ہیں۔ ٹرینیں بھی صرف چند ہیں۔ ایک کراچی کے لیے، دوسرے لاہور اور راولپنڈی کے لیے۔ ریلوے کا حال خراب ہے، انجن اتنے پرانے اور ناکارہ ہوگئے ہیں کہ بولان میں خوفناک حادثہ کے بعد ڈرائیوروں نے پرانے انجن چلانے سے انکار کیا جس سے ان کی اور مسافروں کی جانوں کو خطرات لاحق رہتی ہے۔
کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان دیرینہ تنازعہ ہے جو ابھی تک حل طلب ہے۔ بھارت بضد ہے کہ اس کو دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے جبکہ پاکستان اور اس کے عوام کی یہ رائے کہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں ریفرنڈم کرایا جائے جس میں کشمیری عوام کو یہ حق ملنا چاہئے کہ وہ بھارت میں رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ یہ کشمیری عوام کی مرضی ہے۔
گزشتہ دور میں حزب مخالف کے سیاستدانوں اور مزدور رہنماؤں پر یہ الزام لگایا جاتا تھا کہ وہ اشتعال انگیزی میں ملوث ہیں اور اپنے سیاسی اور دوسرے اہداف حاصل کرنے کے لئے اشتعال نگیزی کا حربہ آئے روز استعمال کرتے رہتے تھے۔ مگر آج کل یہ بات حکومت وقت اور اس کے وزراء پر عائد ہوتی ہے جو جلتی آگ پر تیل چھڑکنے کا کام کررہے ہیں اور ملک میں اشتعال پھیلارہے ہیں۔
ریاست پاکستان نے گزشتہ 67سالوں میں بلوچستان میں بنیادی ڈھانچہ تعمیر کرکے نہیں دیا۔ اس وجہ سے پورے صوبے کو سڑکوں کے جال سے جان بوجھ کر محروم رکھا گیا۔ سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے روڈ ٹرانسپورٹ ناپید تھا اور لوگ مجبور اونٹوں اور گدھوں پر سفر کرتے رہے۔ یہ سلسلہ کئی دہائیوں تک چلتا رہا۔ مریض بوڑھے، بچے عورتیں سب مجبوراً اونٹ کی سواری کرتے رہے۔ مریضوں کو اونٹ، گدھوں پر اسپتال پہنچایا جاتا رہا۔
پی آئی کے دو ملازمین کو گولیاں مار کر ہلاک کردیا گیا۔ دونوں ملازمین نجکاری کے خلاف احتجاج میں شریک تھے کہ ان پر گولیاں چلائی گئیں .گولیاں ان دونوں کو لگیں اور دونوں کو اسپتال پہنچایا گیا جہاں پر وہ ہلاک ہوگئے۔ ابھی تک یہ معلوم نہ ہوسکا کہ گولیاں کس نے چلائیں تھیں۔ نہ ہی کسی گروپ یا سرکاری ادارے نے اس کی ذمہ داری قبول کی۔
پی آئی اے میں بحران اس وقت سے پیدا ہوا جب حکومت نے بین الاقوامی دباؤ میں آکر یہ فیصلہ کرلیا کہ پی آئی اے کی نجکاری ضرور ہوگی۔ اسی دن سے پی آئی اے کے خلاف سازشیں شروع ہوئیں جو آج دن تک جاری ہیں۔ مسلم لیگ کی تاجر لیگ اس بات پر بضد ہے کہ وہ قومی اثاثے اور تمام ریاستی ادارے فروخت کرکے رہے گی۔
ڈاکٹر عاصم حسین اور عزیر بلوچ کی گرفتاریوں کی اعلانات کے بعد بعض سیاسی تجزیہ کار اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ وفاقی حکومت عنقریب سندھ میں بھرپور کارروائی کرے گی جس میں سندھ حکومت کی برطرفی بھی ہوسکتی ہے۔ا س پر معاملہ ختم نہیں ہوگا، پی پی کے مخالف ممتاز بھٹو کو سندھ کا مرد آہن بنایا جائے گا تاکہ وہ پی پی کے خلاف بھرپور کارروائی کرے۔