بلوچی اکیڈمی ایک منفرد قومی ادارہ ہے جو بلوچی زبان اور بلوچی کلچر کے لیے بھر پور خدمات انجام دے رہا ہے ۔ یہ ادارہ چند معروف اور مستند دانشوروں ‘ شاعر اور ادیبوں نے 1950 کی دہائی میں قائم کیاتھا۔ مالی اور دیگر مشکلات کے باوجود بلوچی اکیڈمی نے بلوچی زبان کی ترویج میں زبردست کردار ادا کیا ۔اب تک اس ادارہ نے سینکڑوں کتابیں شائع کیں۔
صوبائی حکومت نے یہ اعلان کردیا ہے کہ صوبہ میں ایک نئی فورس بنائی جارہی ہے جو 1100اہلکاروں پر مشتمل ہوگی شاید اس کا کام گوادر اور اس کے گرد و نواح کی حفاظت ہوگی،اس نئی فورس کے قیام سے صوبائی خزانے پر دو ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا اس لئے صوبائی حکومت نے وفاق سے اس فورس کے قیام کی خاطر مدد کی درخواست کی ہے
اسلام آبادمیں افغانوں کی کچی بستی کے خلاف کارروائی سے حکومت پاکستان کی جانب سے یہ واضح اشارہ سمجھا جارہاہے کہ افغان مہاجرین اور غیر قانونی تارکین وطن کو واپس افغانستان جانا ہوگا۔ ان کے لئے اب مزید رہنے کی گنجائش نہیں ہے
معلوم ہوتا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے کیسکو کو مادر پدر آزاد چھوڑ دیا ہے اور اس کو یہ آزادی مکمل طورپر مل گئی ہے کہ وہ صارفین کے ساتھ جو بھی غیر مناسب سلوک چاہے ،کرے ، ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں ۔ ویسے بھی بلوچستان ایک لا وارث صوبہ ہے جہاں پر وفاقی اہلکاروں کا رویہ اس کے ساتھ ایک کالونی سے زیادہ نہیں۔
انسپکٹر جنرل بلوچستان پولیس نے حکومت کو یہ مشورہ دیا ہے کہ بلوچستان لیویز کو صوبائی پولیس میں ضم کردیا جائے۔ جنرل پرویزمشرف کے حکم سے بلوچستان لیویز فورس کو ختم کرنے کے بعد پولیس میں ضم کردیاگیا تھا
وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ نے منصوبہ بندی اور سرمایہ کاری کیلئے صحیح شعبوں کی نشاندہی کی ہے مگریہی شعبے اکثر بجٹ بناتے وقت نظر انداز کردئیے جاتے ہیں ۔ ماہی گیری ‘ معدنیات ‘ زراعت ‘ گلہ بانی کے شعبے جو صوبے کے ستر فیصد سے زیادہ لوگوں کو روزگار اور ذرائع زیست فراہم کرتے ہیں۔
کل گورداسپور میں دہشتگردی کا واقعہ ہوا ۔ تین دہشت گردوں نے پہلے ایک بس اور کار پر فائرنگ کی اور بعد میں قریبی پولیس اسٹیشن میں گھس گئے جہاں پر پانچ پولیس اہلکاروں بشمول ایک ایس پی کو مار گرایا۔ ان میں سے تین افراد کا تعلق ہوم گارڈز سے تھا ۔ اس طرح پانچ پولیس اہلکار، تین شہری اور تینوں دہشت گرد مارے گئے۔
آئے دن حکومتی اہلکار اور سیاستدان عوام الناس کو یہ تسلیاں دیتے نہیں تھکتے کہ صرف اور صرف گوادر پورٹ کی تعمیر سے پاکستان کے عوام کی قسمت بدل جائے گی ۔ اور اب گوادر کی بندر گاہ کی جگہ گوادر ‘ کاشغر روٹ نے لے لیا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں سے گوادر پورٹ کی تعمیر کاکام جہاں رکا پڑا تھا آج بھی اسی مقام پر ہے ۔
زیر زمین پانی کا مسئلہ گزشتہ دہائیوں سے پریشانی کا باعث بنتا آیا ہے گزشتہ حکومتوں نے اس پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا اور اس کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کا سب سے بڑا مسئلہ زیر زمین پانی کا بے دریغ استعمال ہے ۔
بعض حضرات کو اس پر اعتراض ہے کہ لوگ افغان مہاجرین کی فوری واپسی کا مطالبہ کیوں کررہے ہیں۔ ان میں سب سے آگے بلوچستان نیشنل پارٹی اور اس کے رہنماء ہیں وہ اپنے مطالبے میں اس حد تک گئے کہ انہوں نے افغان مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری کی بھی مخالفت کردی اور… Read more »