سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چوہدری نے اپنی الگ پارٹی بنالی اور ساتھ یہ اعلان کیا کہ ملک میں جمہوری پارلیمانی نظام ناکام ہوگیا ہے اس لئے وہ صدارتی نظام کے لئے جدوجہد کریں گے۔ ملک میں بعض حلقے ان کا احترام کرتے ہیں اور بعض سیاسی حلقے اس کے سیاسی کردارکو جانبدارانہ سمجھتے ہیں۔ ان میں پی پی پی سب سے زیادہ پیش پیش ہے کہ پورے پانچ سال عدالتی نظام کے ذریعے پی پی پی حکومت کو موصوف نے جان بوجھ کر اور نشانہ بناکر مفلوج کیا۔ ملک کے وزیراعظم کو اس بات کی سزادی جو انہوں نے نہیں کیا تھا۔ بعد میں یہ ثابت ہوا کہ سابق وزیراعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی کو سزا غلط تھی اور سوئس کیس کا وقت گزرچکا تھا اور سرکاری ذرائع نے اس کو تسلیم کیا تھا۔ شاید جسٹس افتخار چوہدری نے یہ عمل جان بوجھ کر کیا تا کہ پی پی پی کی حکومت عدم استحکام کا شکار ہو اور شاید یہ مقتدرہ کے اشارے پر کیا گیا۔ عدالت میں بیٹھ کر جسٹس چوہدری سیاسی بیانات زیادہ دیا کرتے تھے فیصلے کم۔ بلوچستان میں ان کا بہت زیادہ احترام تھا مگر مسنگ پرسنز یا اغواء شدہ افراد کے مقدمے میں بلوچستان کے کسی ایک فرد کو کوئی راحت نہیں دی گئی۔ سالوں سال جسٹس چوہدری ڈرامہ بازی کرتے رہے اور مقتدرہ کے ساتھ تعلقات کوخوشگوار رکھا اور مسنگ پرسنز کے معاملے کو داخل دفتر کیا وہ بھی مقتدرہ کی مرضی اور منشاء کے مطابق۔ بعض مقدمات میں باقاعدہ ثبوت فراہم کئے گئے تھے مگر جسٹس چوہدری نے کسی ایک بھی سرکاری اہلکار کو سزا نہیں دی۔
گزشتہ روزبے نظیر بھٹو کی برسی منائی گئی۔ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں اپنی تقریر ختم کرنے کے بعد ان پر قاتلانہ حملہ ہوا جس میں انہوں نے شہادت پائی۔ موت سے پہلے ان کی تقریر مثالی تھی، یادگار تھی اور اس تقریر نے ان کے عزت اور احترام میں بحیثیت رہنما اضافہ کیا ان کی جنگ کسی اور سے نہیں تھی ان کی جنگ فوجی آمر جنرل پرویز مشرف سے تھی ان سے معاہدہ ہوا۔ معاہدے میں انتخابات کرانے کا فیصلہ ہوا۔ جنرل پرویز مشرف کی مرضی کے بغیر وہ تشریف لائیں اور ان کا زبردست استقبال ہوا۔ پہلے ہی روز ان پر قاتلانہ حملہ کیا گیا، لاکھوں کے اجتماع میں ان کے ٹرک کو نشانہ بنایا گیا
جب سے پاکستان بنا ہے حکمرانوں نے بلوچستان کے توانائی کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ کبھی توانائی کے مسائل کو اولیت ہی نہیں دی۔ 67سالوں بعد بلوچستان کے بجلی کی ایک تہائی ضروریات کو پورا کیا جارہا ہے، دو تہائی ضروریات پر کوئی حاکم بات کرنے کو تیار نہیں۔ ظلم خدا کا بلوچستان کی نمائندگی کرنے والے لیڈر اور پارٹیاں بھی حکومت سے یہ مطالبہ نہیں کرتیں کہ ان کے ووٹروں کو بجلی اور گیس فراہم کی جائے۔ شاذ و نادر ہی کسی سیاسی لیڈر یا سیاسی پارٹی نے یہ حکومت سے مطالبہ کیا ہو کہ بلوچستان میں بجلی کی ضروریات پوری کی جائیں۔ ایسی صورت میں بھلا کوئی وفاقی حکومت کیوں بلوچستان کے عوام کو بجلی اور گیس پہنچانے کی زحمت کرے۔ جب عوامی نمائندوں نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ بجلی اور گیس کی عوام کو فراہمی ضروری نہیں
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اچانک دورے پر لاہور آئے۔ وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کی اور واپس دلی چلے گئے۔ جمع کے دن صبح کے وقت انہوں نے وزیراعظم پاکستان کو بتادیا تھا کہ وہ کابل سے دلی جاتے ہوئے لاہور میں کچھ عرصہ قیام کریں گے اور ان سے ملاقات کریں گے۔ چنانچہ وقت کی کمی کی وجہ سے کابینہ کے اراکین خصوصاً قومی سلامتی کے صلاح کار اور سرتاج عزیز بھی اس ملاقات میں شامل نہ ہوسکے۔ لاہور آنے پر وزیراعظم نے خود نریندر مودی کا استقبال کیا اور ہیلی کاپٹر پر ان کو اپنے گھر رائے ونڈ لے گئے جہاں دونوں وزرائے اعظم کے درمیان تقریباً 90منٹ تک ملاقات رہی جس میں باہمی دلچسپی کے امور خصوصاً پاک بھارت تعلقات پر تبادلہ خیال ہوا اس میں یہ فیصلہ ہوا کہ خارجہ سیکریٹریوں کی لیول پر جامع مذاکرات دوبارہ وسط جنوری میں ہوں گے جس میں تمام متنازعہ اور باہمی دلچسپی کے امور پر بات چیت ہوگی۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے پاکستان کو ایک وفاقی ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کیا۔ ہندوستان سے آنے والے آئی سی ایس افسران سے یہ بات شروع ہوئی جو آج تک افسر شاہی اور دانشوروں کے ذہن میں موجود ہے کہ چھوٹے صوبوں کے شہری خصوصاً بلوچ اور سندھی دوسرے درجے کے شہری ہیں ان کے کوئی جمہوری اور شہری حقوق نہیں۔ پورا پاکستان وفاقی نہیں ایک قومی ریاست ہے جو نوکر شاہی پر مشتمل ہے۔ لہٰذا صوبوں کو نو آبادی کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور ان سے اسی قسم کا برتاؤ کیا جاتا ہے۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ پاکستان کس طرح بنا۔ سڑکوں پر نعرے لگانے سے نہیں بنابلکہ بلوچوں نے انگریز سامراج کے خلاف پوری ایک صدی مسلح جدوجہد کی اس جدوجہد میں لاکھوں افراد شہید ہوئے۔
سمندری حدود کا تین چوتھائی سے زیادہ حصہ بلوچستان کے ساحل پر منحصر ہے۔ اس سے بھی زیادہ ایرانی بلوچستان ہے جو مکمل طور پر ساحل مکران کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ گزشتہ 60سالوں سے پاکستان کے حکمرانوں نے اس کی اہمیت سے انکار کیا ہوا تھا۔ جب روسی افواج افغانستان میں اپنی حمایتی حکومت کی امداد کرنے پہنچی تو اچانک یہ مغربی پروپیگنڈا سامنے آیا کہ روس ساحل مکران کے ’’گرم پانیوں‘‘ پر قبضہ چاہتا ہے۔ حکمرانوں نے امریکہ کے شہہ پر روس کے خلاف افغان خانہ جنگی میں بھرپور حصہ لیا۔ افغانوں کو دھونس دھمکی اور لالچ کے ذریعے پاکستان بحیثیت مہاجر بلایا گیا تاکہ روس کے حامی افغان قوم پرست حکومت کے خلاف بھرپور پروپیگنڈا کیا جائے۔
گوادر میں پانی کی قلت ہمیشہ رہی، اس کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ پہلی بار نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت نے 1972ء میں گوادر کو سنٹ سر سے پانی سپلائی کیا۔ محکمہ کی نااہلی کی وجہ سے وہ منصوبہ ناکام ہوا۔ محکمہ کے اہلکاروں نے یہ تک نہیں دیکھا کہ کنوئیں میں پانی موجود ہے کہ نہیں۔ انہوں نے پمپ چلانے شروع کیے۔ پانی کے بجائے ریت آنے کے بعد مشینری تباہ ہوگئی۔ اس کے بعد ایشیائی ترقیاتی بینک نے فنڈ زفراہم کئے اور آکڑہ کور ڈیم کا منصوبہ بنایا۔ یہ واحد منصوبہ تھا جس کے لئے یہ شرط رکھی گئی تھی کہ پانی صرف پینے اور گھریلو استعمال کے لیے ہوگا۔ اس کو تجارتی مقاصد کے لئے استعمال نہیں کیا جائے گا تاکہ گوادر اور اس کے گرد و نواح میں عوام الناس کو پینے کا صاف پانی ملے۔ یہ ڈیم گوادر کے باہر آکڑہ کے مقام پر بنایا گیا تھا۔
کئی ماہ گزر گئے مگر کوئٹہ کی کونسل انتظامیہ نے اپنے بنیادی کام پر توجہ نہیں دی وہ ہے صحت وصفائی۔ میئر اور ڈپٹی میئر اختیارات اور مزید وسائل حاصل کرنے پہنچ گئے۔ صحت وصفائی کا عالم یہ ہے کہ کچرا اٹھانے والی گاڑیاں سڑکوں پر نظر نہیں آرہی ہیں۔ سینٹری یا صفائی کا عملہ بھی سڑکوں اور گلیوں میں نظر نہیں آرہا ہے۔ شہر میں ہر جگہ گندگی کے ڈھیر پڑے ہوئے ہیں۔ حسب سابق تمام گٹر اُبل رہے ہیں اور پورے شہر کو آلودہ کررہے ہیں۔ کئی دہائیوں پہلے کروڑوں روپے خرچ کرکے نواب بگٹی نے سریاب روڈ کی معیاری سڑک تعمیر کی تھی اب گٹر کا ابلتا ہوا پانی اس سڑک کو تباہ کررہا ہے۔ عنقریب یہ تباہ ہوجائے گا اور صوبائی حکومت کو اس کی تعمیر نو میں اربوں روپے درکار ہیں۔
الناس نے رینجرز کے آپریشن کی حمایت صرف اس لئے کی تھی کہ کراچی میں صرف اور صرف لوٹ مار کے لئے انارکی پھیلائی گئی۔ لوٹ مار، قتل وغارت گری کا نشانہ غریب عوام تھے۔ حکمرانوں کے کارندے لوٹ مار کررہے تھے، قتل اور اغواء برائے تاوان میں ملوث تھے۔ اس کی مثال ڈاکوؤں، لٹیروں، رسہ گیروں اور جرائم پیشہ افراد کو بعض سیاسی رہنماؤں کی حمایت حاصل تھی۔ بلکہ سندھ کے سابق وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے تعلقات جرائم پیشہ افراد سے پوشیدہ نہیں تھے۔ وہ ان کے جلسوں اور جلوسوں میں شرکت کرتے تھے اور ان کی منشا کے مطابق فوج کے سربراہ کی حمایت میں جلوس امریکی سفارت خانے تک لے گئے اس کے لئے 50 ہزار افراد کا اجتماع کیا گیا۔ اس کی مالی ضروریات کو پورابھی انہی حکمرانوں کے حواریوں نے کی۔
سے پاکستان بنا ہے حکمرانوں نے بلوچستان کے توانائی کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ کبھی توانائی کے مسائل کو اولیت ہی نہیں دی۔ 67سالوں بعد بلوچستان کے بجلی کی ایک تہائی ضروریات کو پورا کیا جارہا ہے، دو تہائی ضروریات پر کوئی حاکم بات کرنے کو تیار نہیں۔ ظلم خدا کا بلوچستان کی نمائندگی کرنے والے لیڈر اور پارٹیاں بھی حکومت سے یہ مطالبہ نہیں کرتیں کہ ان کے ووٹروں کو بجلی اور گیس فراہم کی جائے۔ شاذ و نادر ہی کسی سیاسی لیڈر یا سیاسی پارٹی نے یہ حکومت سے مطالبہ کیا ہو کہ بلوچستان میں بجلی کی ضروریات پوری کی جائیں۔ ایسی صورت میں بھلا کوئی وفاقی حکومت کیوں بلوچستان کے عوام کو بجلی اور گیس پہنچانے کی زحمت کرے۔ جب عوامی نمائندوں نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ بجلی اور گیس کی عوام کو فراہمی ضروری نہیں اس لئے حکومت پاکستان نے ایران سے بجلی خریدنے کے لئے ابھی تک 20سال کا عرصہ گزار دیا۔ اب