ڈھائی سال بعد مری معاہدے پر عملدرآمد کا فیصلہ کرلیا گیا ‘بلوچستان کے نئے وزیراعلیٰ مسلم لیگ ن کے پارلیمانی لیڈر نواب ثناء اللہ زہری ہونگے۔ مری معاہدے پر عملدرآمد کے بعد صوبے بھر میں مسلم لیگ ن کے رہنماؤں اور کارکنان جشن منارہے ہیں ،اب صوبے میں نئے وزیراعلیٰ بلوچستان حلف اٹھائینگے اور اپنا منصب سنبھالینگے مگر دوسرا مرحلہ جو بہت ہی اہمیت کا حامل ہے وہ کابینہ کی تشکیل ہے۔ ڈھائی سالہ دور حکومت کے دوران مسلم لیگ ن کے پاس کم وزارتیں رہیں جبکہ اس کے مقابلے میں قوم پرست جماعتوں کے پاس وزارت اور گورنر شپ رہا ہے اور گورنر اب بھی قوم پرست جماعت کا ہی ہوگا مگر کابینہ میں ردوبدل یقینی طور پر ہوگا جس میں مخلوط حکومت میں شامل جماعتیں ایک ہم آہنگی سے کابینہ تشکیل دینگے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو اہم وزارتیں ہیں اُس میں کس حد تک ردوبدل کی جائے گی یہ بات بھی یقینی ہے
جب کبھی ملک میں تاجروں کی یا تاجروں کے نمائندوں کی حکومت آتی ہے تو قومی اثاثوں کی نیلامی کاعمل شروع ہوجاتا ہے اس میں خصوصیت کے ساتھ وہ تمام ادارے صف اول میں رکھے جاتے ہیں جوبہت زیادہ منافع کماتے ہیں ۔ گزشتہ ادوار میں تمام بنک فروخت کر دئیے گئے ۔ پی ٹی سی ایل جس کی مالیت کا اندازہ 25ارب ڈالر لگایا گیا تھا ، اونے پونے داموں فروخت کردیا گیا ۔ خریدار ابھی تک اسی کروڑ ڈالر کی بقایا رقم دینے کو تیار ہی نہیں۔ اس کو ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا اسی طرح کے ای ایس سی کا سودا کیا گیا ،سودے میں طے تھا کہ کمپنی نئے بجلی گھر بنائے گی اور بجلی کی پیداوار میں اضافہ کرے گی لیکن یہاں بھی خریدار نے اپنے وعدوں پر عمل نہیں کیا ۔
بی این پی کے صدر اختر مینگل نے گزشتہ روز پارٹی فیصلوں کا اعلان ایک نیوز کانفرنس میں کیا جس میں ساحل اور وسائل پر صوبے کے مکمل اختیار کے مطالبے کو دہرایا اور اعلان کیا کہ وہ اس مسئلے پر ایک آل پارٹیز کانفرنس اسلام آباد میں بلا رہے ہیں جہاں پر وہ دوسری پارٹیوں کے رہنماؤں کو بلوچستان کے حالات سے متعلق معلومات فراہم کریں گے ۔ ساحل و وسائل پر صوبوں کی عمل داری ضروری ہے تاکہ مقامی لوگ نہ صرف اس کو کنٹرول کریں بلکہ ان کو عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لئے استعمال میں لائیں ۔ مگر زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ صوبوں کی وسیع تر خودمختاری پر بات کی جائے
پاکستان ایک رضاکارانہ وفاقی ریاست ہے اور اس وفاق کو وفاقی اکائیوں نے تشکیل دیا ہے اور رضا کارانہ بنیاد پر تشکیل دیا ہے، رضا کارانہ بنیاد پر وفاق کو بعض اختیارات تفویض کیے گئے ہیں اسلئے ریاست وفاقی اکائیوں کا مرہون منت ہے ۔ ا سلئے اختیارات کا اصلی سرچشمہ صوبوں یا وفاقی اکائیوں کو ہونا چائیے نہ کہ مرکزی حکومت یا اس کے اداروں کو ۔ ایسی صورت میں مرکزی حکومت اوراس کے اداروں کو بہت زیادہ طاقتور نہیں ہونا چائیے کہ وہ یہ تاثردیں کہ پاکستان ایک رضا کارانہ وفاق نہیں ہے یا وفاقی ملازمین کی ایک کالونی ہے اورصوبوں کے عوام ان کے ماتحت یا غلام ہیں ۔
آئے دن ایرانی حکام ہم کو شرمندہ کرتے رہتے ہیں اور تقریباً روزانہ سو کے لگ بھگ غیر قانونی تارکین وطن کو ایران میں گرفتار کر لیتے ہیں اور بین الاقوامی سرحد پر مقامی حکام کے حوالے کرتے رہتے ہیں، حکومت پاکستان ٹس سے مس نہیں ہوتی اس کا برتاؤ ایسا ہے کہ کچھ ہوا ہی نہیں ان کو ملک کے وقار اور بے عزتی کی کوئی فکر نہیں ،نہ ہی اس کا کوئی حل تلاش کیا جارہا ہے بلکہ دہائیوں سے یہ کاروبار چل رہا ہے ۔ غریب گھرانے لاکھوں روپے انسانی اسمگلروں کو ادا کرتے ہیں کہ وہ ان کو جنوبی یورپ کے ملکوں میں پہنچائیں مگر وہ بیچارے ایران ہی میں گرفتار ہوجاتے ہیں
گزشتہ روز ملٹری پولیس کے دو اہلکاروں کو صدر کے علاقے میں گولیوں سے نشانہ بنایا گیا، دونوں اہلکار موقع پر ہلاک ہوگئے۔ موٹر سائیکل پر سوار دو دہشت گردوں نے قریب سے آکر دونوں ملٹری پولیس کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا ۔ ہیڈ کو لیگل افسر کے مطابق ایک اسپتال پر پہنچنے پر مردہ پایا گیا دوسرا اسپتال میں زیر علاج تھا کہ اس کا انتقال ہوگیا ۔ پولیس اور تفتیش کاروں کے مطابق دونوں دہشت گرد ملٹری پولیس کی جیپ کا پیچھا کرتے رہے اور تبت سنٹر کے قریب موقع ملتے ہی انہوں نے قریب سے ان پر فائر کیا ان میں سے ایک موقع پر ہی ہلاک ہوا ا ور دوسرا اسپتال جا کر دم توڑ گیا ۔ دونوں کو گولیاں سروں میں لگی تھیں ۔ تفتیش کاروں کے مطابق9ایم ایم کا گن استعمال ہوا ہے ۔
توقع کے مطابق وفاقی حکومت نے منی بجٹ نافذ کردیا اس منی بجٹ کے ذریعے حکومت 379ملین ڈالر یا چالیس ارب روپے ٹیکس کی مد میں جمع کرے گی یہ آئی ایم ایف کا نہ صرف مطالبہ تھا بلکہ دباؤ تھا کہ عوام الناس پر چالیس ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالا جائے ۔ چنانچہ آئی ایم ایف کا حکم تسلیم کیا گیا اور منی بجٹ کا اعلان کیا گیا ۔ مسلم لیگ چونکہ تاجروں کی جماعت ہے یا اس کے فیصلہ کرنے والوں میں تاجر حضرات پیش پیش ہیں ۔ اس لئے مسلم لیگ کی حکومت عوامی مفادات کو نظر انداز کرتی ہے اور تاجر ‘ صنعت کاروں کی مفادات کے تحفظ کو اولیت دیتی ہے ۔ ٹیکسٹائل مافیاکا ہر مطالبہ پورا کیاجاتا ہے
وزیراعظم پاکستان نواز شریف کی افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات ہوئی حالیہ کشیدگی کے ماحول میں یہ ملاقات ایک خوش آئند عمل ہے ۔ ملاقات پیرس میں بین الاقوامی ماحولیاتی کانفرنس کے دوران ہوئی ،اس میں برطانیہ کے وزیراعظم کیمرون بھی تصویر میں نظر آرہے ہیں ۔ برطانیہ اس خطے کا حکمران رہا ہے اور افغانستان کے کچھ حصے ، پورا برصغیر اور بلوچستان ایک صدی تک برطانیہ کی نو آبادی رہی ۔ افغان ‘ بلوچ اور ہند کے باشندوں نے برطانوی غلامی کے خلاف پوری صدی جدوجہد کی ۔ بلوچوں نے 100سالوں میں برطانوی افواج کے خلاف 200چھوٹی بڑی جنگیں لڑیں اور 15فوجی آپریشنز کا سامنا کیا ۔
کراچی میں ہزاروں گرفتاریاں ہوئیں اور سینکڑوں کو ’’ مقابلوں ‘‘ میں ہلاک کیا گیا مگر ابھی تک حالات میں توقعات کے مطابق بہتری نہیں آئی ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ غیر فطری آپریشن ہے ۔ آپریشن سندھ رینجرز کررہی ہے جو کراچی یا سند ھ کے حالات اور واقعات سے بہتر آگاہی نہیں رکھتی ۔ اس وجہ سے متوقع نتائج سامنے نہیں آرہے ۔ متحدہ کا خیال ہے کہ اس کا رخ صرف ان کی طرف ہے ان کے لوگ گرفتار ہورہے ہیں یا مقابلے میں مارے جارہے ہیں ۔ ادھر پی پی پی کا بھی یہی خیال ہے کہ اس کے گھر لیاری میں آپریشن کا مقصد پارٹی کو لیاری سے باہر نکالنا ہے بلکہ سندھ حکومت بعض کارروائیوں سے متعلق
نیشنل سیکورٹی ورکشاپ کے شرکاء سے باتیں کرتے ہوئے بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ موجودہ اور دستیاب وسائل سے بلوچستان کو ترقی دینا مشکل ہے اس لئے وفاقی حکومت کو کئی سو ارب روپے سالانہ بلوچستان پر خرچ کرنا چائیے تاکہ بلوچستان دوسرے صوبوں کے برابر جلد سے جلد آسکے ۔ بلوچستان کا رقبہ تقریباً آدھے پاکستان کے برابر ہے، اس لیے اس کی ترقی پرسرمایہ کے لئے زیادہ سے زیادہ وسائل مختص کیے جائیں تاکہ ترقی کی رفتار تیز ہو اور لوگوں کو مایوسی کے عالم سے باہر نکالا جائے ۔ صنعتی شعبے میں پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک