حکومت اور سیاسی پارٹیوں نے ایک دانشمندانہ فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان یمن کی خانہ جنگی میں غیر جانبدارا رہے گا البتہ سعودی عرب پر حملہ کی صورت میں پاکستان سعودی عرب کی امداد کرے گا اوراس کی سلامتی کا دفاع کرے گا۔
افغان مہاجرین کی آمد 1980ء کی دہائی میں شروع ہوئی اور غالباً اسی زمانے میں ہی رک گئی یا انتہائی کم ہوگئی، ان میں بعض طاقتور اور با اثر افغانوں کو با قاعدہ اعلیٰ سطحی وفد بھیج کر پاکستان بلایاگیاتاکہ ا س وقت کے افغان حکومت کو دنیابھر میں بدنام کیا جا سکے ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ یمن میں علی عبداللہ صالح کے بعد ایک قانونی اور جائز حکومت تھی ۔ مگر گزشتہ سال ستمبر میں ایران کے حمایتی حوثی باغیوں نے حکومت پر قبضہ کر لیا ۔ صدر اور وزیراعظم کو گھروں میں نظر بند کردیا
ہمارے خبروں کے کالم میں ریکوڈک سے متعلق ایک اچھی خبر بڑی تفصیل کے ساتھ عوام النا س کو موجودہ مایوس کن حالات میں حوصلہ افزا اطلاعات پہنچائیں ہیں کہ ریکوڈک بلوچستان کے رہنماؤں کے محفوظ ہاتھوں میں ہے اور وقت آنے پر یہ صرف بلوچستان کی خوشحالی اور عوام کی بہتری کے لئے استعمال میں ہو گا ۔
مقتدرہ کے حامی اور طرف دار سیاسی رہنماؤں اور اراکین پارلیمان کے تقاریر سننے کے بعد سب کو یہ یقین ہوچلا ہے کہ پاکستان اپنی مسلح افواج ‘ جنگی طیارے اور بحری جہاز یمن کی جنگ کے لئے نہیں بھیجے گا ۔ تقریباً سب نے اس بات کی مخالفت کی کہ پاکستان کی حکومت سعودی عرب کی درخواست پر جنگی طیارے
یہ خوش آئند بات ہے کہ عمران خان اور اس کی پارٹی نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کریں گے اور یمن کے مسئلے پر اپنا بھرپور موقف بیان کریں گے۔ ان کا جو بھی موقف ہو بہر حال فیصلہ اکثریت نے کرنا ہے ۔
دنیا کی چھ بڑی طاقتوں نے ایران کے سول جوہری پروگرام پر عملدرآمد کے حق کو تسلیم کرلیا ۔ایران شروع دن سے یہ کہتے ہوئے آرہا ہے کہ وہ ایٹمی اسلحہ نہیں بنائے گا کیونکہ اسلام میں ایٹمی اسلحہ اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار حرام ہیں کیونکہ اس سے خون ناحق بہتا ہے۔
یمن کے حالیہ واقعات نے پورے خطے میں ایک ہلچل مچادی ہے اور سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کو فوری کارروائی پر مجبور کردیا ہے۔ وجہ ظاہر ہے کہ شیعہ اقلیت کا یمن کے اقتدار پر بزور طاقت قبضہ ہے۔ یہی بات بحرین اور دوسرے ممالک میں بھی دہرائی جاسکتی ہے
حکومت پاکستان نے یمن کے بحران پر ایک واضح موقف اپنایا ہے۔ ملک کی اکثریت اس پالیسی کی حمایت کرتی نظر آتی ہے۔ تاہم حکومت پاکستان نے اس مسئلہ کو صرف سعودی عرب کی سالمیت کی حمایت سے تعبیر کیا ہے۔ حالات اور واقعات شاید ہیں کہ یمن کا بحران مختلف ہے
متحدہ کے رہنما الطاف حسین نے ایک مرتبہ پھر استعفیٰ دیا اور گھنٹوں میں عوام اور کارکنوں کے بے حد اصرار پر واپس بھی لے لیا۔ الطاف حسین کو مہاجروں کی غیر متنازعہ لیڈر شپ کا شوق ابھی تک موجود ہے اور اس کے ساتھ ریاستی اقدامات سے خوفزدہ بھی ہے۔ آئے دن ریاستی ادارے ان کے اور ان نامور رہنماؤں کے خلاف شہادتیں اکھٹی کررہے ہیں