موجودہ حکومت کو اس وقت دو اہم اور بڑے چیلنجز کا سامنا ہے ایک سیاسی استحکام اور دوسرا معیشت، جن سے کم وقت میں نمٹ کر نکلنا ہے جو کہ آسان نہیں مگر ناممکن بھی نہیں ہے ۔بروقت اقدامات وسیع تناظر میں کرنے ہونگے سیاسی اتحاد سے بالاتر ہوکر ماہرین سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے کہ معاشی بحران پر کس طرح قابو پایا جاسکتا ہے، بجلی لوڈشیڈنگ سے صنعتیں متاثر ہورہی ہیں کاروبار سمیت عام لوگ متاثر ہیں اس سے کیسے نکلا جائے تاکہ صنعتی پہیہ چلتا رہے۔
وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ہدف حاصل کرنے پر ایف بی آر ٹیم کی تعریف کی ہے۔ انہوں نے تعریف ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز کے دورے کے دوران کی۔ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز کا دورہ کیا تو انہیں ادارے کی کارکردگی اور ریونیو اکھٹا کرنے کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔
ملک میں گزشتہ چند برسوں کے دوران سیاستدانوں نے اپنے مفادات کی غرض سے اداروں میں یا تو براہ راست مداخلت کی ، اداروں کو اپنے تحفظ اور انتقامی کارروائیوں کیلئے استعمال کیا،اس طرح سے پورا نظام مفلوج ہوکر رہ گیا ہے نتیجہ یہ نکلا کہ ادارے اور حکومت کے درمیان تو خلیج پیدا ہوئی ساتھ ہی عوام کے اندر بھی اس زہر کو لایا گیا ۔
کوئٹہ پیکج گزشتہ دو حکومتوں کے دورسے تعطل کا شکار ہے شہر کی بڑھتی آبادی کے باعث مسائل میں اضافہ ہورہا ہے، ٹریفک کا دباؤ، سیوریج کانظام، پانی سمیت دیگر اہم مسائل ہیں جو حل طلب ہیں کوئٹہ پیکج ایک بہترین پروجیکٹ ہے جس کی تکمیل سے کوئٹہ شہر کے بہت سے مسائل حل ہوجائینگے ۔
ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی کے بغیر کوئی بھی ادارہ مستحکم نہیں ہوسکتا اور نہ ہی ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے جبکہ اندرون خانہ سیاسی استحکام کا بھی براہ راست تعلق اس سے ہے اور عام لوگوں کے مسائل بھی اسی سے جڑے ہوئے ہیں۔ جب آئین اور قانون کی بالادستی کو بالائے طاق رکھتے۔
اس وقت ملک میں سیاسی صورتحال اپنے معمول پر نہیں آرہی ہے سیاسی جماعتوں کے درمیان کشیدگی جاری ہے ایک طرف پی ٹی آئی تو دوسری جانب پی ڈی ایم ہے ، الزامات لگانے کا سلسلہ بھی جاری ہے یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد جلسے میں ایک مبینہ خط کو لہراتے ہوئے کہاکہ ملک کے اندربیرونی مداخلت کے ذریعے حکومت کو تبدیل کرنے کی سازش کی جارہی ہے جس میں اپوزیشن آلہ کار بنی ہوئی ہے بقول عمران خان کہ امریکہ چاہتا ہے کہ عمران خان کو ہٹایا جائے کیونکہ میں انہیں قابل قبول نہیں ہوں اگر ایسا نہ ہوا تو بہت ہی سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئی ہیں ۔اس کے بعد عدم اعتماد کی تحریک کے روز ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری نے رولنگ دیتے ہوئے اس تحریک کو بیرونی سازش قرار دیا اور تحریک کو مسترد کیا ۔
سابق وزیراعظم عمران خان کو جب فارغ کیا گیا تو اول روز سے قارئین کے سامنے یہ نکتہ رکھتے آئے ہیں کہ مبینہ خط کے اندر کچھ نہیں ہے اور کوئی بھی ملک کسی دوسرے ملک کے اندر مداخلت سازش یا دھمکی باقاعدہ تحریری طور پر لکھ کر نہیں بجھواتا جس کی ایک طویل تاریخ اورفہرست ہے، جہاں بھی رجیم چینج ہوا اور براہ راست امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے طاقت کا استعمال کیا وہ ہمارے سامنے ہیں جن میں بیشتر مسلم ممالک ہیں، البتہ جواز ضرور پیش کیا گیا اور خوفناک انداز میں ان پر حملہ آور ہوئے اور وہاں اندرون خانہ جنگی پیدا کی گئی۔
پاکستان میں آزادی اظہار رائے ایک دیرینہ مسئلہ بنا ہوا ہے کسی بھی دور میں آزادی اظہار رائے کو برداشت نہیں کیا گیا بلکہ کالے قوانین کے ذریعے مزید سختیاں کی گئیں۔ جس معاشرے میں اس طرح کی صورتحال پیدا ہوجائے تو بھیانک نتائج برآمد ہوتے ہیں، جب حقائق کو تسلیم کرنے کی بجائے انہیںدبانے کی کوشش کی جائے تو اس کا نتیجہ خود ریاست کے حق میں نہیں جاتا بلکہ منفی پروپیگنڈے اور رجحان میں اضافہ ہوتا ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے بعد اپوزیشن اتحاد پر مشتمل نئی حکومت بنی جس میں تمام جماعتوں کو کابینہ کا حصہ بنایا گیا ہے سوائے پی ٹی آئی کے۔ کابینہ میںملک کی بڑی اور چھوٹی جماعتیں شامل ہیں جن کی قومی اسمبلی میں اپنی نشستیں ہیں جبکہ کچھ وزراء ممبر اسمبلی نہ ہونے کے باوجود بھی کابینہ کا حصہ ہیں۔
وزیراعظم شہبازشریف گزشتہ روز 13 رکنی وفد کے ہمراہ سعودی عرب کے 3 روزہ سرکاری دورے پر مدینہ منورہ پہنچے۔وزیراعظم شہباز شریف کے ہمراہ ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی، وفاقی وزراء بلاول بھٹو زرداری، شاہ زین بگٹی، چوہدری سالک حسین،خواجہ آصف، مفتاح اسماعیل، مریم اورنگزیب، خواجہ آصف اور ایم این اے محسن داوڑ شامل ہیں، وفد میں وزیراعظم شہباز شریف کے پرسنل اسٹاف کے 4 لوگ بھی ان کے ہمراہ ہیں۔