مہنگی بجلی، آئی پی پیز معاہدے، تاجر اور عوام کی مشکلات، حکومت بے بس کیوں؟

| وقتِ اشاعت :  


گزشتہ چند ماہ سے ملک میں بجلی کے نجی کارخانوں (آئی پی پیز) کو کی جانے والی ادائیگیاں کپیسِیٹی پیمنٹ زیرِ بحث ہے اور سوال اٹھایا جارہا ہے کہ یہ کارخانے بجلی بناتے ہی نہیں تو ان کو اربوں روپے کیوں دئیے جارہے ہیں تو وہیں کچھ لوگ الزام لگاتے ہیں کہ ان آئی پی پیز کے پیچھے دراصل ملک کی اشرافیہ بشمول سیاستدان اور کاروباری شخصیات ہیں جو ان سے بے جا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔



بلوچستان میں سیلابی صورتحال، بارشوں کے باعث 10 اضلاع آفت زدہ قرار، متاثرین کی فوری امداد کیلئے اقدامات کی ضرورت!

| وقتِ اشاعت :  


سیلابی صورتحال اور بارشوں کی وجہ سے بلوچستان کے 10 اضلاع کوآفت زدہ قرار دیاگیا ہے۔پی ڈی ایم اے کی جانب سے جاری نوٹیفیکیشن میں جن 10 اضلاع کو آفت زدہ قرار دیا گیا ہے، ان میں قلات، زیارت، صحبت پور، لسبیلہ، آواران، کچھی، جعفر آباد، اوستہ محمد، لورالائی اور چاغی شامل ہیں۔ پروونشل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی بلوچستان کے مطابق صوبائی حکومت ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کی پوزیشن میں ہے۔



نقص امن کا خدشہ ، انتظامیہ کا کوئٹہ پریس کلب کو مراسلہ، آزادی اظہار اور پریس کلب کا ذمہ دارانہ کردار!

| وقتِ اشاعت :  


ملک میں اظہار رائے پر قدغن لگانے سے عالمی سطح پر مثبت پیغام نہیں جائے گا البتہ اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں منفی پروپیگنڈہ،خوف انتشار، غیر یقینی جیسی کیفیت کا ماحول پیدا کرنے جیسے موادکی کبھی بھی صحافتی برادری کی جانب سے حمایت نہیں کی گئی اور نہ ہی اسے رپورٹ کرکے اخبار کی زینت بنائی۔ جہاں تک ملک بھر کے پریس کلب ہیں وہ بھی مکمل ذمہ داری کے ساتھ پریس کلب کے معاملات چلاتے ہیں پریس کلبز میں حکومتی سمیت ملک کی مذہبی، سیاسی، سماجی جماعتیں پریس کانفرنسز سمیت دیگر تقریبات کا انعقاد کرتی ہیں جس میں پریس کلب کے ذمہ داران بھی شرکت کرکے اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہیں ۔اس کے علاوہ عام شہری بھی اپنی فریاد پریس کلب کے ذریعے حکام تک پہنچانے کیلئے اس فورم کا استعمال کرتے ہیں مگر کسی کالعدم تنظیم کو کبھی بھی پریس کلب میں پریس کانفرنس اور تقریب منعقد کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ گزشتہ روز کوئٹہ کے ڈپٹی کمشنر نے صدر کوئٹہ پریس کلب کو مراسلہ ارسال کیا ہے جس میں کوئٹہ پریس کلب میں کانفرنسز یا سیمینار کے انعقادسے قبل ڈپٹی کمشنر کا این او سی لازمی قرار دیا گیا ہے۔ مراسلے میں کہا گیا ہے کہ کسی سیاسی جماعت اور تنظیم کو بغیر این او سی کے کانفرنس یا سیمینار کی اجازت نہ دی جائے۔مراسلے میں کہا گیا ہے کہ یہ فیصلہ امن وامان کی صورتحال کے پیش نظر کیا گیاہے۔ بہرحال یہ مراسلہ آزادی اظہار پرقدغنلگانے کے مترادف ہے اور جو طریقہ کار اپنایا گیا ہے وہ بالکل غلط ہے۔ ہوناتو یہ چاہئے تھاکہ اگر کسی معاملے میں حکومتی سطح پر تحفظات موجود ہیں تو پریس کلب کے نمائندگان سے بات چیت کی جاتی ، انتظامیہ کی جانب سے اس طرح مراسلہ جاری کرنا نامناسب ہے۔ ملک کے پریس کلبز نے ہمیشہ ذمہ داری سے اپنے فرائض سر انجام دیئے ہیں،وہ نقص امن کا کبھی حصہ نہیں بنے ہیں اور یہ ریکارڈ پر موجود ہے۔ پریس کلب میں آکر سیاسی، مذہبی، سماجی سمیت دیگر تنظیمیں اپنی سیاسی سرگرمیوں سے آگاہ کرتے ہیں اس میں حکومتوں میں شامل جماعتیں بھی ہیں۔ بہرحال اس مراسلہ پر حکومت نظر ثانی کرے اور وفود کی صورت میں پریس کلب کے ذمہ داران سے بات چیت کرے کہ ان کے تحفظات اور اعتراضات کیا ہیں جن سے امن و امان کا مسئلہ پیدا ہورہا ہے۔ امید ہے کہ حکومت آزادی اظہار پر قدغن لگانے کی بجائے مثبت طریقے سے معاملات کو حل کرے گی۔