کورونا وائرس کو لے کر کچھ غلط فہمیاں

| وقتِ اشاعت :  


کورونا وائرس ایک مہلک عالمی وباء ہے جو ایک انسان سے دوسرے انسان میں تیزی سے منتقل ہوتا ہے۔لیکن شعور کی کمی کہوں، خوف یا کم عقلی،کورونا وائرس کی تمام تر علامات کو خود میں محسوس کرنے کے بعد بھی لوگ ٹیسٹ کرانے سے گھبراتے ہیں کس وجہ سے “کہ حکومت صحیح ٹیسٹ نہیں کرتی، یہ سب ڈرامہ ہے ہر ٹیسٹ کرانے والے کو پازیٹو رزلٹ دیا جائیگا اگر کورونا پازیٹو آگیا تو ہمیں زبردستی کورونا ٹیم اٹھا لے گی، ہمارے معاشرے میں بدنامی ہوگی کہ فلاں کو کورونا ہے ہمیں ماردیا جائیگاا و دیگر مختلف افواہیں آپکو اپنے ارگرد سننے کو ملینگی”



مسئلہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں اور فیسوں کا.

| وقتِ اشاعت :  


کورونا کی قیامت برپا ہوئی تو پاکستان میں اس کی پہلی ضرب اسکولوں پر پڑی۔ ایک جانب کھیل کے میدان سجے رہے تو دوسری جانب علم کے دروازے بند کر دئیے گئے۔ صوبائی حکومتوں کا شاید یہ خیال ہوگا کہ اسکولوں کے دروازے اگر بند کر دیے جائیں تو کورونا کے سارے وائرس کھیل کود میں لگ جائیں گے اور ہم ان کو کھیل کے میدانوں میں گھیر گھار کر ہلاک کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن یہ وائرس اتنے بد ذوق اور خشک مزاج ثابت ہوئے کہ کھیل کے میدانوں کو ہی اجاڑ کر رکھ دیا۔
پاکستان کھیل سے فارغ ہوا تو پھر کہیں جاکر ارباب اختیار و اقتدار کو کورونا کی تباہ کاریوں کا خیال آیا۔



موت کے سوداگر

| وقتِ اشاعت :  


ہمارے ملک میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جوکہ ڈاکٹرز (مسیحاؤں)کے ساتھ سرے عام موت کے کاروبار میں ملوث ہیں جہاں چند پیسوں کے عوض انسان جیسے اشرف المخلوقات کی زندگیوں سے گھناؤنا کھیل کھیل کر انہیں موت کی وادی میں دھکیلا جارہا ہے اور یہ منافع بخش اور جان لیواکاروبار پوش علاقوں کے علاوہ اندرون صوبہ اور مقامی سطح پر ڈاکٹرز اور میڈیکل ریپ والوں کی ملی بھگت سے جاری ہے۔اور کیوں نہ ہو جس معاشرے میں انسانی زندگی کی کوئی قیمت نہ ہو، جہاں حیوان اور انسان میں کوئی چیز مشترک شمار نہ کی جائے، جہاں خدمت خلق محض کتابی باتیں لگنے لگیں۔



بلوچستان میں گڈ گورننس اور میرٹ کے نفاذ سے ہی محرومیوں کا خاتمہ اور ترقی کا سفر ممکن ہو سکتا ہے*

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان کی صوبائی اسمبلی 1972 میں ایک صدارتی حکم نامے کے تحت وجود میں آئی۔اسمبلی کا پہلا اور باقاعدہ اجلاس 2 مئی 1972 کو منعقد ہوا جس میں 21 ارکان (ایک خاتون اور 20 مرد حضرات) نے شرکت کی۔ بلوچستان کی صوبائی اسمبلی نے وجود میں آنے کے بعد سے لیکر اب تک کے اس سفر میں مجموعی طور پر 8 عام انتخابات دیکھے ہیں۔اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی تعداد بتدریج بڑھ کر 65 ہو چکی ہے۔ اگرچہ ارکان کی تبدیلی کی وجہ سے یہ تعداد گھٹتی اور بڑھتی رہی ہے۔ 1972میں ارکان کی کل تعداد21اور 1977 ء میں 45 تھی جو 1999 میں گھٹ کر 43 ہو گئی۔



برطانوی ہندوستان میں جمہوریت کا آغاز

| وقتِ اشاعت :  


اس حقیقت سے مفر نہیں تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو ہندوستان میں 1892 کا انڈین کو نسل ایکٹ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔اس ایکٹ میں پہلی مرتبہ جمہوریت کا آئیڈیا دیا گیا جو کسی حد تک سیاسی لحاظ سے ہندوستانیوں کو مطمئن کر سکا اور ہندوستان میں جمہوریت کا پیہہ خراماں خراماں چل پڑا۔ مزید تفصیل میں جانے سے پہلے یہاں یہ بات واضح کر تا چلوں کہ آخر برطانیہ کو ان کونسل ایکٹس کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ 1857 کی جنگ آزادی کے بعد ہندوستانیوں میں سیاسی شعور بیدار ہوا۔انہوں نے سیاسی حقوق کے لیے بھاگ دوڑ شروع کردی۔ اب ایسا بھی نہیں ہے کہ 1892 کا کونسل ایکٹ پہلا ایکٹ تھا جو ہندوستان میں متعارف ہوا۔ اس سے پہلے بھی کونسل ایکٹس تھے 1861 کا کونسل ایکٹ 1831 کا کونسل ایکٹ، 1813 کا کونسل ایکٹ۔1857 سے پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی بھی اپنے ایکٹس متعارف کرتی تھی۔



سیاست سوداگری رہ گئی۔

| وقتِ اشاعت :  


سیاسی جماعتیں اور لیڈر،عوام کو منظم کرنے، عوامی مفادات کو تحفظ دینے، عوام کو اپنے حقوق، زمین کے وسائل اور ملکیت کے بارے میں شعور دینے کا کام کرتی ہیں، ضرورت کے مطابق عوامی تحریک منظم کرتی،جلسہ جلوس اور ریلیاں نکالتی ہیں جن کا مقصد رائے عامہ ہموار کرنا اور عوام کو سیاسی عمل میں شریک کر کے سیاسی طاقت کے ذریعے مسائل کو حل کی جانب لے جانا ہوتا ہے۔ بلوچستان میں خصوصاً قومی سیاسی جماعتوں کا ایک بڑا اثر رہا ہے جو عوام کے مسائل اور قومی مفادات پر ہمیشہ عوام کے ساتھ کھڑی رہی ہیں۔



پولیس کا رویہ

| وقتِ اشاعت :  


گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو کلپ جس میں ایک خاتون جو خود کو کرنل کی بیوی بتا رہی ہے ایک پولیس والے کے ساتھ نازیبا طریقے سے محو کلام ہے اور یہ خاتون آپے سے باہر ہوگئی ہے۔ ایک بد مزگی کا ماحول پیدا ہو گیا اور پولیس اس کے سامنے ہیچ ہو گئی۔خاتون جانے پہ بضد اور پولیس والا اسے روکنے پہ بضد۔تلخی اس قدر بڑھ گئی کہ گتھی سلجھ ہی نہ پائی۔اس میں کوئی مغالطہ نہیں غلطی سراسر اس خاتون کی تھی جو قانون کی دھجیاں اڑانے کے درپے تھی یا قانون اس کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتاتھا۔اس کے بعد سوشل میڈیا پہ خاتون کی ایسی درگت ہوئی جس سے جتنا ہو سکا دشنام طرازی اور لغو گوئی کا مظاہرہ کرتا رہا اور پولیس کے ساتھ دلی ہمدردی جتائی جانے لگی اور تعریفوں کے پل باندھے گئے۔خاتون کے اس نازیبا رویے پہ نا چاہتے ہوئے میں نے بھی پولیس کے ساتھ ہمدردی کے دو بول کہہ دئیے کیونکہ اس فورس میں بھلے انسان بھی ہیں۔



بلوچستان میں جعلی لوکل/ ڈومیسائل سرٹیفکیٹس کے خلاف مہم۔

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان و سندھ میں جعلی لوکل و ڈومیسائل کا مسئلہ کئی دہائیوں سے چلتا آرہا ہے۔ اس مسئلہ کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش کبھی نہیں کی گئی جسکی وجہ سے ہم نے بہت نقصان اٹھایا۔ ماضی میں جو ہوا اب اسکا ازالہ ہونا چاہئے اور مستقبل میں اس بوگس لوکل/ ڈومیسائل کے مسئلے کو ہمیشہ کیلئے ختم ہونا چائیے۔ سندھ میں جب عوام نے اس مسئلے پر آواز اٹھائی تو حکومت نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا اور سیکرٹری لیول کی کمیٹی بنا کر اسے حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ مسئلہ کافی عرصے سے میرے ذہن میں تھا کہ اس کے خلاف ایک باقاعدہ مہم شروع کی جائے تاکہ ہماری حکومت و سیاسی جماعتیں اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں۔



کورونا سے کیسی جھجھک۔

| وقتِ اشاعت :  


ابتدا میں کورونا نے جب چین میں پنجے گاڑے تو ہم دیسی لوگ ٹھٹھا کر نے لگے کم بخت چائینز حرام کھاتے ہیں اس وجہ سے اس مرض کا شکار ہوئے ہیں ہمارے تو گماں میں بھی نہ تھا کہ یہ ان دیکھا وائرس سبک رفتاری سے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے گا اور بڑا سم قاتل ثابت ہو گا۔قیاسات و شبہات کا عنصر تو انسانی فطرت کا حصہ ہے،ہماری دانست کسی بھی بات کو اتنی آسانی سے نہیں سمجھتی اور نہ ہی تسلیم کرتی ہے۔پہلے تو ہم نے کورونا کو بدیسی بیماری تصور کرنے لگے ہمارا اس سے کا ہے کا تعلق؟ہم سے کیا پلے باندھنا،جن کے ہاں تخلیق ہوئی ہے انہی کے گلے پڑے گی۔



بچوں کے بگڑنے کے ذمہ دار کون۔۔۔۔؟

| وقتِ اشاعت :  


ایک بڑی تعداد ہے ایسے لوگوں کی جو کہتے ہیں ہمارا بچہ دوستوں میں رہ کر بگڑ گیا ہے، باہر کے ماحول نے اسے بگاڑ دیا ہے، بچہ جھوٹ بولے تو دوستوں نے سکھایا، بدتمیزی کرے تو دوستوں نے سکھایا، بچہ گالی دے تو دوستوں نے سکھایا ہے یقین جانیں یہ سوچ ہی غلط ہے،۔درحقیقت بچے کے بگڑنے کی وجہ والدین کے اپنے فرائض کی عدم ادائیگی ہے، شروع سے ہی بچے کی تربیت کو اہم فریضہ سمجھا جاتا، بچے کی پرورش کو اولین ترجیح دی جاتی تو یہ بچہ دوستوں میں جا کر کبھی خراب نہیں ہوتا بلکہ دوستوں کی اصلاح کا سبب بنتا،۔بچہ پیدا ہوتے ہی دوستوں میں نہیں جا بیٹھتا، پیدا ہوتے ہی اسکے دوست اسے لینے نہیں آجاتے، پیدا ہوتے ہی آوارہ گردی شروع نہیں کرتا، پیدا ہوتے ہی سگریٹ نہیں پکڑتا، کم و بیش شروع کے دس سال تک بچہ مکمل والدین کے ساتھ اٹیچ ہوتا ہے۔