سیاسی جماعتیں اور لیڈر،عوام کو منظم کرنے، عوامی مفادات کو تحفظ دینے، عوام کو اپنے حقوق، زمین کے وسائل اور ملکیت کے بارے میں شعور دینے کا کام کرتی ہیں، ضرورت کے مطابق عوامی تحریک منظم کرتی،جلسہ جلوس اور ریلیاں نکالتی ہیں جن کا مقصد رائے عامہ ہموار کرنا اور عوام کو سیاسی عمل میں شریک کر کے سیاسی طاقت کے ذریعے مسائل کو حل کی جانب لے جانا ہوتا ہے۔ بلوچستان میں خصوصاً قومی سیاسی جماعتوں کا ایک بڑا اثر رہا ہے جو عوام کے مسائل اور قومی مفادات پر ہمیشہ عوام کے ساتھ کھڑی رہی ہیں۔
گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو کلپ جس میں ایک خاتون جو خود کو کرنل کی بیوی بتا رہی ہے ایک پولیس والے کے ساتھ نازیبا طریقے سے محو کلام ہے اور یہ خاتون آپے سے باہر ہوگئی ہے۔ ایک بد مزگی کا ماحول پیدا ہو گیا اور پولیس اس کے سامنے ہیچ ہو گئی۔خاتون جانے پہ بضد اور پولیس والا اسے روکنے پہ بضد۔تلخی اس قدر بڑھ گئی کہ گتھی سلجھ ہی نہ پائی۔اس میں کوئی مغالطہ نہیں غلطی سراسر اس خاتون کی تھی جو قانون کی دھجیاں اڑانے کے درپے تھی یا قانون اس کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتاتھا۔اس کے بعد سوشل میڈیا پہ خاتون کی ایسی درگت ہوئی جس سے جتنا ہو سکا دشنام طرازی اور لغو گوئی کا مظاہرہ کرتا رہا اور پولیس کے ساتھ دلی ہمدردی جتائی جانے لگی اور تعریفوں کے پل باندھے گئے۔خاتون کے اس نازیبا رویے پہ نا چاہتے ہوئے میں نے بھی پولیس کے ساتھ ہمدردی کے دو بول کہہ دئیے کیونکہ اس فورس میں بھلے انسان بھی ہیں۔
بلوچستان و سندھ میں جعلی لوکل و ڈومیسائل کا مسئلہ کئی دہائیوں سے چلتا آرہا ہے۔ اس مسئلہ کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش کبھی نہیں کی گئی جسکی وجہ سے ہم نے بہت نقصان اٹھایا۔ ماضی میں جو ہوا اب اسکا ازالہ ہونا چاہئے اور مستقبل میں اس بوگس لوکل/ ڈومیسائل کے مسئلے کو ہمیشہ کیلئے ختم ہونا چائیے۔ سندھ میں جب عوام نے اس مسئلے پر آواز اٹھائی تو حکومت نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا اور سیکرٹری لیول کی کمیٹی بنا کر اسے حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ مسئلہ کافی عرصے سے میرے ذہن میں تھا کہ اس کے خلاف ایک باقاعدہ مہم شروع کی جائے تاکہ ہماری حکومت و سیاسی جماعتیں اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں۔
ابتدا میں کورونا نے جب چین میں پنجے گاڑے تو ہم دیسی لوگ ٹھٹھا کر نے لگے کم بخت چائینز حرام کھاتے ہیں اس وجہ سے اس مرض کا شکار ہوئے ہیں ہمارے تو گماں میں بھی نہ تھا کہ یہ ان دیکھا وائرس سبک رفتاری سے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے گا اور بڑا سم قاتل ثابت ہو گا۔قیاسات و شبہات کا عنصر تو انسانی فطرت کا حصہ ہے،ہماری دانست کسی بھی بات کو اتنی آسانی سے نہیں سمجھتی اور نہ ہی تسلیم کرتی ہے۔پہلے تو ہم نے کورونا کو بدیسی بیماری تصور کرنے لگے ہمارا اس سے کا ہے کا تعلق؟ہم سے کیا پلے باندھنا،جن کے ہاں تخلیق ہوئی ہے انہی کے گلے پڑے گی۔
ایک بڑی تعداد ہے ایسے لوگوں کی جو کہتے ہیں ہمارا بچہ دوستوں میں رہ کر بگڑ گیا ہے، باہر کے ماحول نے اسے بگاڑ دیا ہے، بچہ جھوٹ بولے تو دوستوں نے سکھایا، بدتمیزی کرے تو دوستوں نے سکھایا، بچہ گالی دے تو دوستوں نے سکھایا ہے یقین جانیں یہ سوچ ہی غلط ہے،۔درحقیقت بچے کے بگڑنے کی وجہ والدین کے اپنے فرائض کی عدم ادائیگی ہے، شروع سے ہی بچے کی تربیت کو اہم فریضہ سمجھا جاتا، بچے کی پرورش کو اولین ترجیح دی جاتی تو یہ بچہ دوستوں میں جا کر کبھی خراب نہیں ہوتا بلکہ دوستوں کی اصلاح کا سبب بنتا،۔بچہ پیدا ہوتے ہی دوستوں میں نہیں جا بیٹھتا، پیدا ہوتے ہی اسکے دوست اسے لینے نہیں آجاتے، پیدا ہوتے ہی آوارہ گردی شروع نہیں کرتا، پیدا ہوتے ہی سگریٹ نہیں پکڑتا، کم و بیش شروع کے دس سال تک بچہ مکمل والدین کے ساتھ اٹیچ ہوتا ہے۔
میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا آخر بلوچستان میں یہ سب کچھ کیسے ممکن ہو گیا۔ آخر بلوچستان حکومت کو فقیر کے ایک تعویز نے راتوں رات دبئی کے مد مقابل آ کھڑا کر دیا۔ پاکستان کے تمام صوبے، شمالی علاقہ جات،سندھ، کے پی کے اور پنجاب فقیر کے تعویز سے کیسے محروم رہ گئے تھے۔ آخر اتنا بڑا فقیر بلوچستان حکومت کے کیسے ہاتھ لگ گیا جس نے بلوچستان کی قسمت کو راتوں رات بدل دیا اور چار چاند کے بجائے چودھویں کے چاندوں سے سجا دیا۔پنجاب سندھ شمالی علاقہ جات اور کے پی کے کے لوگ اپنی جگہ مگر دنیا کے گورے چٹے لوگوں نے بھی بلوچستان کا رخ کیا تھا۔
کرونا کی تباکاریاں دنیا میں زوال کی جانب اور پاکستان میں عروج کی جانب گامزن ہیں۔ کیچ میں کربلا عموماً مئی میں ہوتا ہے چاہئے فدا احمد شہید کی شہادت ہو یا ساہجی کربلا یا ڈنوک کی عاسیب زدہ سیاہ رات۔مفادات جب اپنے جوبن پر ہوں تو کیا گرمی، کیا سردی، کیا دھوپ،کیا چھاؤں۔
ٹیلی ویژن پر ہمیشہ بلوچستان کے متعلق بری خبریں ہی ملتی ہیں، کہیں دہشت گردی تو کہیں ٹارگٹ کلنگ تو کہیں غداری،کہیں خون میں نہاتے بے گناہ شہری تو کہیں پر باغیانہ کاروائیاں۔ان لفظوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کے بلوچستان میں قتل و غارت کے سوا کچھ نہیں پایا جاتا۔ لیکن سوال ابھرتا ہے کہ کیا بلوچستان میں کوئی تعمیری سرگرمیاں یا کوئی مثبت کام نہیں ہوتا۔ اگر ہوتا ہے؟تو وہ بہت کم ہوتا ہے مگر ایسا نہیں۔حالیہ کرونا وائرس اور پھر لاک ڈاؤن نے تمام شعبوں کو سخت متاثر کیا ہے جس کی وجہ سے ہزاروں لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں۔
ہمارے ملک پاکستان کی معیشت کا ایک بڑا حصہ زراعت سے آتا ہے جس میں گندم کپاس مکئی اور بہت سی فصلیں شامل ہیں ان کو مختلف قسم کی بیماریاں،کیڑے مکوڑوں اور بجلی کے لوڈشیڈنگ جیسے بڑے مسائل پیش آتے ہیں ان مسائل کے علاوہ اس بار ایسے حشرات حملہ آور ہوئے ہیں جو کم و بیش 20 سال پہلے حملہ کر چکے تھے، ایک بار پھراس آفت کا نازل ہونا ملک کے لیے بڑے خطرے سے کم نہیں پہلے سے کرونا جیسی وبائی مرض پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے۔ زراعت سے ہماری جی ڈی پی کا تقریباً 22 فیصد حصہ آتا ہے اس کے علاوہ زراعت 44 فیصد آبادی کو روزگار فراہم کرتا ہے۔