انسان کی خوشگوار زندگی میں ایمان کا کلیدی کردار ہے۔باایمان شخص ہمیشہ پرامید رہتا ہے، وہ اپنے آپ کو ہر وقت کسی ناقابل شکست غیبی طاقت کے زیرسایہ پاتا ہے، وہ مایوسی کو کفر سمجھتا ہے، ایمان انسانی زندگی کو بامقصد بنا دیتا ہے؛ کیونکہ وہ روح اور بدن کی جدائی یعنی موت کو ابدی ہلاکت نہیں سمجھتا بلکہ اسے عارضی زندگی سے حقیقی زندگی کی طرف ایک سفر قرار دیتا ہے، باایمان شخص پر اگر زندگی میں کچھ مصائب و آلام آ بھی جائیں تو وہ پریشان حال نہیں ہوتا کیونکہ اسے ایمان اور یقین ہے کہ دنیاوی مشکلات اخروی آسائشوں کا پیش خیمہ ہیں۔ پریشانی کے مختلف اسباب و علل ہیں؛ کبھی انسان مال کی کمی کی وجہ سے پریشان ہوتا ہے، بسااوقات صحت خراب ہونے کے باعث بے چین ہوتا ہے، گاہے بہ گاہے کسی عزیزکی فوتگی کے باعث مضطرب ہوتا ہے، کبھی کبھاراولاد کے نہ ہونے کے سبب بے سکون ہوتاہے۔
لاکھوں انسانوں کے دلوں میں بسنے والے، لاکھوں بے کس و لاچار وں کی آواز بن کر اپنوں سے دور، بے وطنی کی کرب میں مبتلا اور انکی وطن اور قوم سے محبت کی شدت کو وہی بہتر انداز میں بیان کر سکتے ہیں جو وہ موجودہ دور میں انکے شریک سفر تھے۔ ہم بس وہی لکھتے ہیں جو اس وقت سماج میں ایک قلم کار کی ذمہ داری ہے اور ان کا قلم اْن سے بھی یہی تقاضہ کرتا ہے بقول فراز “کہ
ڈاکٹر عبدالمالک کو جس وقت وزیر اعلیٰ بلوچستان بنے اس وقت بلوچستان کی سیاسی صورتحال انتہائی دگر گوں تھی ہر طرف بم دھماکوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ سب کیلئے سوہان روح بنا ہوا تھا، فرقہ وارانہ کشیدگی تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی، ہزارہ برادری کا خون اس قدر ارزاں تھا کہ دن دھاڑے سر بازار سینکڑوں افراد روزانہ گولیوں کا نشانہ بن رہے تھے۔
کورونا وائرس کے دو ماہ سے زائد لاک ڈاون نے جہاں کاروبار زندگی کو متاثر کیا ہے وہاں مزدور تاجر پیشہ پرائیویٹ سکولزمیں کام کرنے والے اساتذہ مزدور طبقات,حجام میکینک ہارڈوئیر ہوٹلوں اور دکانوں پر کام کرنے والے مزدور، کولڈڈرنک کاسمیٹک سمیت دیگر روزانہ اجرت کرنے والے شدید متاثر ہونے والے افراد کورونا سے زیادہ بھوک سے خوفزدہ ہونے لگے ہیں اور اس لاک ڈاؤن کے دوران وہ نان فقہ کے ہی محتاج ہو گئے ہیں۔
آج کے دور میں بہت ہی کم مزدوں کو پتہ ہوگا یکم مئی مزدورں کا دن ہے۔کیونکہ مزدور آج کے دن بھی اپنی روٹی کے لیے سرگرداں ہیں۔دن تو انکا ہے لیکن افسوس اپنی دن کو منانے سے بھی محروم ہیں اس سال تو رہی سہی کسر کورونا وائریس نے پوری کردی، نہیں تو پانچ ستارے والے ہوٹلوں میں مختلف تقریبات اس دن کی مناسبت سے رکھ لی جاتی جن سے مزدوروں کو کوسوں دور رکھا جاتا۔
شکیسپئر نے سیون ایجز آف مین میں زندگی کی بہترین تصویر کشی کی ہے گویا ایسا لگتا ہو زندگی ایک کتاب کی مانند ہو جو مختلف ابواب پر مشتمل ہو۔ہر باب میں ندرت الفاظ کا ذخیرہ ہو صفحوں پہ مختلف رنگوں کے ساتھ بہترین تصویر کاری اور منظر کشی کی گئی ہو تاکہ جاذب نظر لگے اور پڑھنے والا اس پر اپنی غائرانہ نظر جمائے رکھے۔لیکن تاسف یہ ہے کہ اتنی خوبصورت کتاب کو قاری پڑھنے کے بعد کسی دن ایک کونے میں رکھ دیتا ہے پھر یہ کتاب دیمک کی نظر ہو جاتی ہے۔
یوم مئی، مزدوروں کا عالمی دن یا لیبر ڈے، ہم کیوں مناتے ہیں۔ ہوتا یہ تھا کہ مزدور کی زندگی ایک گدھے کے برابر تھی۔ ایک جانور کی طرح مزدور سے کام لیا جاتا تھا۔ دن میں 16-16 گھنٹے کام لیا جاتا۔ تنخواہ بھی کچھ خاص نہیں تھی، اوور ٹائم کا تصور ہی نہیں تھا۔ ڈیوٹی کے دوران اگر کوئی مزدور زخمی ہو جاتا یا مر جاتا تو اس کے تمام اخراجات خود مزدور کے ذمہ تھے، فیکٹری یا مل کی طرف سے ایسا کوئی قانون نہیں تھا کہ مزدور کو زخمی ہونے کی صورت میں اس کا علاج کروایا جاتا۔ مزدور کی ملازمت کا فیصلہ مالک کی صوابدید پر ہوتا وہ جس کو چاہتا ملازمت پر رکھتا اور جس کو چاہتا ملازمت سے ہٹا دیتا۔ ہفتے میں سات دن کام کرنا پڑتا، چھٹی کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔
حکومت نے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں بڑی کمی کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق یکم مئی سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 15 روپے فی لیٹر کمی کا امکان ہے جس کی سمری بھی تیار کر لی گئی ہے جو اوگرا کی جانب سے پیٹرولیم ڈویژن کو ارسال کی جائے گی۔لائٹ ڈیزل اور مٹی کے تیل میں بھی 10 روپے فی لیٹر کمی ہوگی جبکہ نئی قیمتوں کا اطلاق یکم مئی سے ہو گا۔مشیرخزانہ عبدالحفیظ شیخ کے مطابق پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید کمی کریں گے جس سے سفری اور توانائی لاگت بھی کم ہو جائے گی۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں محنت کش آج یکم مئی کا دن منارہے ہیں یہ سلسلہ 1886ء سے آج تک جاری ہے۔آجر اور اجیریا صنعت کار و مزدور دونوں کی حیثیت فیکٹری کے پہیہ کی مانند ہے کہ اگر وہ کسی بھی صورت برابر چلتے ہوئے اپنا توازن برقرار نہ رکھ پائے تو معیشت رک جاتے ہیں اور بغیر معیشت کسی بھی ملک کا کاروبار زندگی رواں دواں نہیں رکھ سکتا حکومتیں صنعت کار کاروباری حضرات غرض یہ کہ ہر کوئی اس حقیقت سے واقف ہے کہ محنت کش کی محنت کو شامل کئے بغیر ان کے کارخانے کے چمنی سے دھواں نہیں نکل سکتا۔ کھیت سونا نہیں اگل سکتا۔
یکم مئی 1886 ء کی اس جنگ شکاگو کے گلی کوچوں میں لڑی گئی۔ جنگوں کی تاریخ میں مختصر ترین جنگ تھی۔ کیونکہ یہ گناہگار منصفوں اور بے گناہ مجرموں کے درمیان لڑی گئی تھی۔ یہ جھوٹ اور صداقت کے درمیان جنگ تھی یہ جنگ کسی کھوکھلے اور اتفاقی جذبے کے تحت نہیں لڑی گئی۔ بلکہ پوری شعور اور پختگی کے ساتھ مٹھی بھر لٹیروں کے خلاف لڑی گئی تھی۔یہ جنگ نہ انفرادی تھی۔اور نہ گروہی بنیادوں پر تھی۔بلکہ یہ خالصتاً طبقاتی بنیادوں پر تھی۔ یکم مئی کو دنیا کے محنت کش اس انسانی المیے کو یاد کرنے کیلئے یوم مئی مناتے ہیں۔