تربت یونیورسٹی پاکستان میں اعلیٰ تعلیم دینے والی بڑی جامعات میں ایک بڑا معتبر نام جاناجاتاہے جو سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان کامریڈ ڈاکٹر عبدالمالک نے بنایا جس میں تین ہزار کے قریب طالبعلم تعلیم حاصل کر رہے ہیں جو مکران ریجن کے عوام کے لیئے کسی نعمت سے کم نہیں۔مگر کرونا نے طلباء و طالبات کاقیمتی تعلیمی سال اور سمسٹر کو بری طرح متاثر کیا ہے اور ہائر ایجوکیشن کمیشن نے طلباء و طالبات کے قیمتی سال کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیئے اپنا پالیسی بیان اور نوٹیفکیشن جاری کیا اور ایچ ای سی کے چئیرمین نے گزشتہ دنوں پریس کانفرنس کیا لیکن ایچ ای سی چیرمین کی پریس کانفرنس اور پالیسی بیان اور تربت یونیورسٹی کے حالیہ فیصلے میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔
بہت پرانے وقتوں میں ٹی بی، چیچک‘ خناق‘ کالی کھانسی اور خسرہ آیا تو چند ماہ میں پوری دنیا میں پھیل گیا‘ انسان نے ان اموات سے یہ سیکھا کہ آپ ہر شخص کو فوری طور پر اپنے شہر‘ اپنے ملک میں داخل نہ ہونے دیں چناں چہ سمندروں کے کنارے احاطے بنا دیے گئے اور بحری جہازوں سے اترنے والے لوگوں اور عملے کے لیے40 دن ان احاطوں میں رہنا لازم قرار دے دیا گیا۔قرنطینہ اطالوی زبان کے لفظ giorni quarantaسے نکلا ہے جس کا مطلب ہے چالیس دن۔ریکارڈ کی گئی انسانی تاریخ میں 3 بار پلیگ (بیکٹیریا) نے لاکھوں انسانوں کو نگل لیا۔
بلوچستان میں پولیس اور لیویز عوام کے تحفظ اور علاقائی امن وامان کی بہتری کے لئے اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں نصیرآباد ڈویژن میں پولیس کے جوانوں کی عظیم قربانیاں ہیں اور صرف نصیرآباد میں 70 سے زائد جوانوں نے جام شہادت نوش کیا ہے ان میں ڈی ایس پی,انسپکٹر رینک سمیت دیگر جوان بھی شہید ہوئے ہیں جبکہ متعدد آفیسران مختلف حادثات میں زخمی بھی ہوئے ہیں۔ نصیرآباد ڈویژن میں پانچ اضلاع نصیرآباد، جعفر آباد، صحبت پور مکمل پولیس ایریا ہیں جبکہ جھل مگسی اور کچھی میں پولیس کے ساتھ ساتھ لیویز فورس بھی خدمات سرانجام دے رہی ہے۔
حکو مت بلوچستان کی جانب سے بلوچستان کے وسیع وعر یض علاقوں تک پھیلی ہوئی آباد یوں حکومت کو کرونا وائرس سے محفوظ کیلئے سخت اور ایم اقدامات کرنے پڑے ہیں۔جس کی و جہ سے یہ صوبہ ہلاکتوں میں اضا فہ کو روکنے میں کامیاب نظر آرہی ہے۔ ماہرین کے مطابق چین نے مشتبہ لوگوں کو زیادہ تعداد میں قرنطینہ میں رکھنے اور ساتھ ہی ووہان سمیت کئی شہروں میں شہریوں کی نقل وحرکت پر مکمل پابندی عائدرکھنے کی وجہ سے وائرس پر قابو پانے میں کامیابی حاصل کی ہے ابتدائی ایام میں چین میں تباہی مچانے والے سارس خاندان سے تعلق رکھنے والے اس نئے وائرس نے وقت کے ساتھ ساتھ یورپ اور دیگر براعظموں کا سفر دنوں اور بعض جگہوں کا گھنٹوں میں طے کیا چین کے بعد یہ وائرس دیگر ممالک کے ساتھ پاکستان میں پھیلنا شروع ہوگیا۔
یہ سنہء 1963 کی بات ہے کہ جب اس نے بلوچستان کے ضلع جعفر آباد کے محلہ ابڑہ کالونی کے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی بچپن میں اسے معلوم نہیں تھا کہ زندگی جس افلاس کی پٹڑی پر چلنے والی ہے وہ کس قدر مشکل ہوگی۔اس کے سفید بال بڑھاپے کا ثبوت تھے جو کہ موتیوں کی طرح چمک رہے تھے غربت نے اسکے چہرے پر پڑی جھریوں کو مذید واضع کر رکھا تھا اور اسکی آواز میں ایک صدا تھی جس جسکا پس منظر نصف صدی سے زائد پہ محیط تھا۔اماں لال خاتون 9 سال پہلے بیوہ ہوگئی تھی انکا کنبہ 5 بیٹوں اور 2 بیٹوں پرمشتمل ہے۔
انسان کی خوشگوار زندگی میں ایمان کا کلیدی کردار ہے۔باایمان شخص ہمیشہ پرامید رہتا ہے، وہ اپنے آپ کو ہر وقت کسی ناقابل شکست غیبی طاقت کے زیرسایہ پاتا ہے، وہ مایوسی کو کفر سمجھتا ہے، ایمان انسانی زندگی کو بامقصد بنا دیتا ہے؛ کیونکہ وہ روح اور بدن کی جدائی یعنی موت کو ابدی ہلاکت نہیں سمجھتا بلکہ اسے عارضی زندگی سے حقیقی زندگی کی طرف ایک سفر قرار دیتا ہے، باایمان شخص پر اگر زندگی میں کچھ مصائب و آلام آ بھی جائیں تو وہ پریشان حال نہیں ہوتا کیونکہ اسے ایمان اور یقین ہے کہ دنیاوی مشکلات اخروی آسائشوں کا پیش خیمہ ہیں۔ پریشانی کے مختلف اسباب و علل ہیں؛ کبھی انسان مال کی کمی کی وجہ سے پریشان ہوتا ہے، بسااوقات صحت خراب ہونے کے باعث بے چین ہوتا ہے، گاہے بہ گاہے کسی عزیزکی فوتگی کے باعث مضطرب ہوتا ہے، کبھی کبھاراولاد کے نہ ہونے کے سبب بے سکون ہوتاہے۔
لاکھوں انسانوں کے دلوں میں بسنے والے، لاکھوں بے کس و لاچار وں کی آواز بن کر اپنوں سے دور، بے وطنی کی کرب میں مبتلا اور انکی وطن اور قوم سے محبت کی شدت کو وہی بہتر انداز میں بیان کر سکتے ہیں جو وہ موجودہ دور میں انکے شریک سفر تھے۔ ہم بس وہی لکھتے ہیں جو اس وقت سماج میں ایک قلم کار کی ذمہ داری ہے اور ان کا قلم اْن سے بھی یہی تقاضہ کرتا ہے بقول فراز “کہ
ڈاکٹر عبدالمالک کو جس وقت وزیر اعلیٰ بلوچستان بنے اس وقت بلوچستان کی سیاسی صورتحال انتہائی دگر گوں تھی ہر طرف بم دھماکوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ سب کیلئے سوہان روح بنا ہوا تھا، فرقہ وارانہ کشیدگی تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی، ہزارہ برادری کا خون اس قدر ارزاں تھا کہ دن دھاڑے سر بازار سینکڑوں افراد روزانہ گولیوں کا نشانہ بن رہے تھے۔
کورونا وائرس کے دو ماہ سے زائد لاک ڈاون نے جہاں کاروبار زندگی کو متاثر کیا ہے وہاں مزدور تاجر پیشہ پرائیویٹ سکولزمیں کام کرنے والے اساتذہ مزدور طبقات,حجام میکینک ہارڈوئیر ہوٹلوں اور دکانوں پر کام کرنے والے مزدور، کولڈڈرنک کاسمیٹک سمیت دیگر روزانہ اجرت کرنے والے شدید متاثر ہونے والے افراد کورونا سے زیادہ بھوک سے خوفزدہ ہونے لگے ہیں اور اس لاک ڈاؤن کے دوران وہ نان فقہ کے ہی محتاج ہو گئے ہیں۔
آج کے دور میں بہت ہی کم مزدوں کو پتہ ہوگا یکم مئی مزدورں کا دن ہے۔کیونکہ مزدور آج کے دن بھی اپنی روٹی کے لیے سرگرداں ہیں۔دن تو انکا ہے لیکن افسوس اپنی دن کو منانے سے بھی محروم ہیں اس سال تو رہی سہی کسر کورونا وائریس نے پوری کردی، نہیں تو پانچ ستارے والے ہوٹلوں میں مختلف تقریبات اس دن کی مناسبت سے رکھ لی جاتی جن سے مزدوروں کو کوسوں دور رکھا جاتا۔