لالہ صدیق کو بھلانا مشکل ہے

| وقتِ اشاعت :  


لڑکپن کا دور تھا ،تعلیمی فراغت کے بعد کچھ کرنے کا شوق ذہن میں سر ایت کر چکا تھا،لکھنے کا جنون ہمیشہ سر پر سوار رہتا ،رات بھر جاگ کر،کوشش بسیار کے بعد اپنے تئیں ایک درست اور بامطلب مضمون لکھنے کامہم سر کرنے کے بعد اسکے چھپنے کی خواہش دل میں لیئے اخبارات کا چکر کاٹناجیسے روز مرہ کے شغل کا حصہ بن گیا تھا ۔



لالہ صدیق بلوچ۔۔کچھ یادیں ، کچھ باتیں

| وقتِ اشاعت :  


اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ صدیق بلوچ صاحب کے انتقال سے بلوچستان کی صحافت میں جو خلاء پیدا ہوا وہ مدتوں پر نہیں ہوگا،،یہ صرف کہنے کی بات یا لفاظی نہیں ہے،،،یہ وہ بات ہے کہ جو حقیقت پر مبنی ہے،،ان کا انداز صحافت جس طرح کاتھا،،وہ انداز آج کی تیزررفتار زندگی بلکہ صحافت میں خال خال ہی ملتاہے،،،،اور بلوچستان کہ جہاں صحافت صحیح معنوں میں جوئے شیرلاناکے برابر ہے اور۔۔۔صحافت گہہ الفت میں قدم رکھناہے۔۔۔۔۔



آپ ہی نے ہمیں زبان دی تھی

| وقتِ اشاعت :  


منگل 06 فروری کو جب لالا صدیق بلوچ کے انتقال کی خبر سوشل میڈیا پر اڑتی ہوئی آئی تو پھر سوشل میڈیا کا رنگ یکسر بدلنے لگا ۔ لوگوں نے لالا کی تصاویر کو اپنا پروفائل بنانا شروع کر دیا اور پھر تعزیت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل نکلا۔



آہ !’’ لالہ صدیق بلوچ ‘‘

| وقتِ اشاعت :  


صدیق بلوچ ایک ایسا نام جو صحافت خصوصاً بلوچستان کی صحافت میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا بلوچستان کے صحافی اُنہیں ’’لالہ ‘‘اور سندھ کے صحافی ’’ماما‘‘ کے نام سے پکارتے تھے ۔ لالہ صدیق بلوچ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں وہ کوئٹہ کے صحافیوں کو اپنے خاندان کا حصہ سمجھتے تھے ۔



فروری مادری زبان میں تعلیم کی اہمیت کو اجاگرکرنے کادن

| وقتِ اشاعت :  


جب دستور ساز کمیٹی نے جنوری 1952 ؁ میں اردو کو پاکستان کا واحد قومی زبان قرار دینے کی سفارش کی تو اس کے رد عمل میں 21 فروری 1952 ؁ کوڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبا ء نے بنگالی زبان کو اردو کے ساتھ قومی زبان کا درجہ دلانے کی خاطرجلوس نکالا جس پر پولیس نے فا ئرنگ کی اور 5 طلبا شہید ہو گئے۔



داخلی سلامتی کی صورت حال پر بحث: اعتراض کیوں؟

| وقتِ اشاعت :  


سیاسی مقاصد کچھ بھی ہوں مگر پاکستان مسلم لیگ(ن)کے رہنما اور بعض غیر جانب دار تجزیہ کار،تنقیدی نظر سے اپنا جائزہ لینے کی بات کر رہے ہیں تاکہ کھل کر پتہ چل سکے کہ آج پاکستان افراتفری کا شکار کیوں ہے۔



لالا صدیق بلوچ کی رحلت ،ایک عہد کا اختتام

| وقتِ اشاعت :  


سمجھ میں نہیں آ رہا ابتداء کہا ں سے کروں ،آنکھیں نم ہیں ،دل اداس ہے ،افسردگی نے اپنی باہوں میں ایسا لپیٹا ہے کہ نکل ہی نہیں پارہا۔لالا کی موت ایک فرد کی موت نہیں ،ایک تسلسل کا اختتام ہے۔



یہ گوادر ویسا تو نہیں ہے ۔ ۔ ۔

| وقتِ اشاعت :  


چاروں طرف بپا خاموشی میں جب دور موجود چند چینی ہنستے کھیلتے دکھائی دیے تو حیرانی ہوئی کہ ایک ایسی جگہ پر جہاں دور تک کوئی دکھائی نہیں دے رہا تو بھلا یہ یہاں کیا کررہے ہیں؟ جب تجسس بڑھا تو معاملے کو قریب سے جاکر دیکھنے کا فیصلہ کیا اور جب اُن کے پاس پہنچا تو معلوم ہوا کہ یہ چینی یہاں اب کوئی مہمان نہیں، بلکہ مستقل مکین بن چکے ہیں اور مصروفیت سے کچھ وقت نکال کر مچھلیاں پکڑنا ان کا روز کا معمول بن چکا ہے۔



کیا گوادر گرین سٹی بن جائے گا؟

| وقتِ اشاعت :  


گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی (جی ڈی اے) کاانوائرنمنٹ سیکٹر کا قیام شہر کے ترقیاتی منصوبوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ماحولیات کے تحفظ اور گوادر گرین سٹی کے خواب کو شرمندہ تعبیر بنانا ہے۔ جس کا مقصد شہر کی خوبصورتی اور مستقبل میں گوادر کو ماحولیات کے عین اصولوں کے مطابق گرین شہر بنانا ہے۔



میدان صحافت کے غازی

| وقتِ اشاعت :  


وہ ایک سلجھے ہوئے نڈر اور بے باک صحافی تھے۔بلوچستان کی سیا ست پر انکی گہری نظر تھی۔زمانہ طالب علمی سے ہی عملی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا ۔ پہلے پہل نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے طلباء کی حقوق کے لیے آواز بلند کی ۔