سفید ریشی اوربزرگی، نیکی اور فراخ دلی کے ساتھ ایک عظمت اور نعمت خداوندی ہیں ۔لالہ صدیق بلوچ سے تعلق کی بنیاد اُن کی یہی عظیم صفتوں کے باعث دوستی بلکہ شاگردی میں بدل گئی۔
لالہ صدیق بلوچ، گوہر نایاب
عبدالمتین اخوانزادہ | وقتِ اشاعت :
عبدالمتین اخوانزادہ | وقتِ اشاعت :
سفید ریشی اوربزرگی، نیکی اور فراخ دلی کے ساتھ ایک عظمت اور نعمت خداوندی ہیں ۔لالہ صدیق بلوچ سے تعلق کی بنیاد اُن کی یہی عظیم صفتوں کے باعث دوستی بلکہ شاگردی میں بدل گئی۔
ملک سراج اکبر | وقتِ اشاعت :
لالہ صدیق بلوچ بلاشبہ ہمارے عہد کے عظیم ترین بلوچ صحافی تھے۔ جب پیر چھ فروری کو وہ 78سال کی عمر میں کراچی میں سرطان سے چار سالہ جنگ میں زندگی کی بازی ہار گئے انھوں نے بلوچستان میں اپنے پیچھے سینکڑوں ایسے سوگوار صحافی چھوڑے جوان کی تقلید کرتے ہوئے صحافت کے شعبے میں داخل ہوئے تھے۔
ظفر بلوچ | وقتِ اشاعت :
تاریک رات میں ، خوابوں کی جھرمٹ سے ٹہلتا ہوا اْجالے میں آپہنچا تو آج سانس لینے میں دْشواری محسوس ہورہا تھی. فضاء میں بھی ایک سوگوار دھند چھائی ہوئی تھی, ہر طرف مغموم حالت تھی, تیز ہوا کے جھونکے چل رہے تھے۔
ندیم فیروزی | وقتِ اشاعت :
یہ 1994 کی بات ہے جب میں نے بلوچستان یونیورسٹی میں ایم اے صحافت میں داخلہ لیا۔ میرے کزن اور یونیورسٹی میں میرے کلاس فیلو محمد پناہ بلوچ کے ذریعے میری پہلی ملاقات جناب صدیق بلوچ صاحب سے ان کے اخبار بلوچستان ایکسپریس واقع فیض محمد روڈ کوئٹہ میں ہوئی۔ میں نے ایم اے صحافت کی انٹرشپ بھی ان کے زیر نگرانی بلوچستان ایکسپریس میں کی۔
وارث بلوچ | وقتِ اشاعت :
کسی محفل میں بیٹھے دوستوں سے سن رہا تھا کہ جب مری قبیلہ نواب مری کے ہمراہ افغانستان سے واپس آیا تو بی ایس او اور دیگر بلوچ سیاسی پارٹیوں کے کامریڈز ہفتے میں ایک بار ضرور مری کیمپ کا رخ کرتے تاکہ واپسی پر دوستوں کے ساتھ فخریہ انداز سے حال احوال میں مری کیمپ دورے کا ذکر کریں کیونکہ وہاں جانا ہر بلوچ نوجوان اپنے لئے باعث فخر سمجھتا تھا۔
تنویر احمد | وقتِ اشاعت :
یہ تو قطعیت سے یاد نہیں کہ وہ کونسا دن یا تاریخ تھی لیکن یہ دس برس پہلے کا ہی کوئی دن تھا جب کراچی پریس کلب میں اس بزرگ شخص سے ملاقات ہوئی جس کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ ہمیشہ موجود رہتی۔اپنے دوست عارف بلوچ کے ساتھ اس شخص کی پریس کلب میں آمد پرمیں بھی ان بزرگ سے بڑے احترام سے ملا جسے سب “ماما،ماما”کہہ کر پکار رہے تھے۔
شبیر رخشانی | وقتِ اشاعت :
کوئٹہ میں میرے قیام کو ایک ہفتہ ہو چکا تھا۔ کوئٹہ کی سردیوں میں ہیٹر کا مزہ لیتے ہوئے اکتا چکا تھا۔ باہر کی سرد ہوا کھانے کو من نہیں? کر رہا تھا۔ لیکن کمرے میں? مسلسل میری موجودگی میرے لیے ذہنی اکتاہٹ?کا سبب بن رہی تھی۔ سو، ذہن میں? کئی خاکے آئے133 کہاں کا انتخاب کیا جائے اور کیوں چلا جائے۔ سوال ذہن میں گردش کرتا رہا۔ خیال آیا کیوں نہ روزنامہ آزادی کے دفتر کا انتخاب کیا جائے۔ جو کسی زمانے میں? آواران سے میری خبری رپورٹنگ کا ذریعہ ہوا کرتا تھا۔
دوست جان نور | وقتِ اشاعت :
کوئٹہ کی ایک یخ بستہ صبح، بروز منگل 6 فروری 2017 بھری نیند میں تھا کہ اچانک سے سیل فون کی گھنٹی کانوں میں کہیں دْور بج رہی تھی، تب نیند چھوڑ کر جاگنا پڑا۔ جب تک میں اْٹھا، فون کی بیل بند ہو چکی تھی۔
محمد خان داؤد | وقتِ اشاعت :
“وقت ایک بہتی ندی کی مانند سب کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے اور وہ خواب اْڑ جاتے ہیں یا بھلا دیے جاتے ہیں یا وہ اْڑ جاتے ہیں، جیسے صبح کے سحر میں سپنے یاد نہیں رہتے!’’
جاوید بلوچ | وقتِ اشاعت :
لالا آپ کو تو پتہ ہے کہ بلوچستان اور اس کے احوال قومی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے نزدیک شاید ہی کالعدم تھے جو آنے کی غلطی نہیں کرتے تھے اب بھی یہ رواج کچھ کم سہی مگر برقرار ہے.