
گراناز یہ میرو کی بانسری کی آواز ہے نا ؟؟ آنی نے گدھے پر لادھی مشکیزہ اتارتے وقت پیچھے موڑ کر پہاڑی کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔۔ وہی ابدال ہے اور کون ہوسکتا ہے جو پہاڑوں میدانوں میں بانسری بجاتا پھرے ہمیشہ۔۔۔۔گراناز نے بے دلی سے جواب دیا۔۔۔۔
گلزار بلوچ | وقتِ اشاعت :
گراناز یہ میرو کی بانسری کی آواز ہے نا ؟؟ آنی نے گدھے پر لادھی مشکیزہ اتارتے وقت پیچھے موڑ کر پہاڑی کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔۔ وہی ابدال ہے اور کون ہوسکتا ہے جو پہاڑوں میدانوں میں بانسری بجاتا پھرے ہمیشہ۔۔۔۔گراناز نے بے دلی سے جواب دیا۔۔۔۔
ظریف بلوچ | وقتِ اشاعت :
یہ چھ فروری کا صبح تھا۔موبائیل آن کرنے کے بعد ایک درجن کے قریب وٹس ایپ گروپ سے آنے والے میسجز پر سرسری نگاہ دوڑاتا رہا۔ پہلی نظر ’’ساربان‘‘گروپ کے ایک میسج پر پڑا جہاں لالہ صدیق کے ناگہانی موت کی خبر دیکھ کر افسردگی ہوئی۔
مجید اصغر | وقتِ اشاعت :
بلوچستان میں مثبت صحافتی اقدار اور حریت فکر کا ایک روشن چراغ تقریباً نصف صدی تک محرومیوں کے اندھیروں میں روشنی کی امیدیں جگاتے ہوئے 6 فروری کو پیر اور منگل کی درمیانی رات کے آخری پہر نہایت خاموشی سے بجھ گیا۔
انور ساجدی | وقتِ اشاعت :
گزشتہ سال ستمبر کے آخر میں صدیق بلوچ ایک جان لیوا دھمکی سن کر آئے تھے تاکہ مجھے اپنے حصہ کی دھمکی پہنچائیں اس دن وہ بہت کرب میں تھے ان کا کہنا تھا کہ ایک دھمکی تو برداشت کی جاسکتی ہے لیکن اظہار رائے پر پابندی کی دھمکی ناقابل برداشت ہے۔
تحریر : شہزاد بلوچ / ترجمہ :عاصم خان | وقتِ اشاعت :
یہ رات کا وقت تھا اور پورا خاندان ضروری سامان جمع کرنے کے بعد سریاب روڈ پر کوئٹہ کی پٹیل ہاؤسنگ سوسائٹی میں گھر کے باہر انتظار کر رہا تھا۔جبکہ صدیق بلوچ اپنے دفتر کے اندر اپنی زوجہ محترمہ کی رحلت سے متعلق خبروں کو ٹائپ کرنے میں مصروف تھے، ان کے شریک حیات کی عمر 50 سال سے زائد تھی،ہم سب رو رہے تھے اور اپنی ماں کو کھونے پر گہرے غم میں تھے لیکن وہ مضبوط رہے انہوں نے خبر فائل کی جسکے بعد ہم جنازے میں شرکت کیلئے کراچی کیلئے روانہ ہوئے۔
عبدالمتین اخوانزادہ | وقتِ اشاعت :
سفید ریشی اوربزرگی، نیکی اور فراخ دلی کے ساتھ ایک عظمت اور نعمت خداوندی ہیں ۔لالہ صدیق بلوچ سے تعلق کی بنیاد اُن کی یہی عظیم صفتوں کے باعث دوستی بلکہ شاگردی میں بدل گئی۔
ملک سراج اکبر | وقتِ اشاعت :
لالہ صدیق بلوچ بلاشبہ ہمارے عہد کے عظیم ترین بلوچ صحافی تھے۔ جب پیر چھ فروری کو وہ 78سال کی عمر میں کراچی میں سرطان سے چار سالہ جنگ میں زندگی کی بازی ہار گئے انھوں نے بلوچستان میں اپنے پیچھے سینکڑوں ایسے سوگوار صحافی چھوڑے جوان کی تقلید کرتے ہوئے صحافت کے شعبے میں داخل ہوئے تھے۔
ظفر بلوچ | وقتِ اشاعت :
تاریک رات میں ، خوابوں کی جھرمٹ سے ٹہلتا ہوا اْجالے میں آپہنچا تو آج سانس لینے میں دْشواری محسوس ہورہا تھی. فضاء میں بھی ایک سوگوار دھند چھائی ہوئی تھی, ہر طرف مغموم حالت تھی, تیز ہوا کے جھونکے چل رہے تھے۔
ندیم فیروزی | وقتِ اشاعت :
یہ 1994 کی بات ہے جب میں نے بلوچستان یونیورسٹی میں ایم اے صحافت میں داخلہ لیا۔ میرے کزن اور یونیورسٹی میں میرے کلاس فیلو محمد پناہ بلوچ کے ذریعے میری پہلی ملاقات جناب صدیق بلوچ صاحب سے ان کے اخبار بلوچستان ایکسپریس واقع فیض محمد روڈ کوئٹہ میں ہوئی۔ میں نے ایم اے صحافت کی انٹرشپ بھی ان کے زیر نگرانی بلوچستان ایکسپریس میں کی۔
وارث بلوچ | وقتِ اشاعت :
کسی محفل میں بیٹھے دوستوں سے سن رہا تھا کہ جب مری قبیلہ نواب مری کے ہمراہ افغانستان سے واپس آیا تو بی ایس او اور دیگر بلوچ سیاسی پارٹیوں کے کامریڈز ہفتے میں ایک بار ضرور مری کیمپ کا رخ کرتے تاکہ واپسی پر دوستوں کے ساتھ فخریہ انداز سے حال احوال میں مری کیمپ دورے کا ذکر کریں کیونکہ وہاں جانا ہر بلوچ نوجوان اپنے لئے باعث فخر سمجھتا تھا۔