وہ شخص جو کراچی کی ہر چھوٹی بڑی سرگرمی میں اپنا کیمرہ لہراتے ہوئے، زندگی کے ہر لمحے کو قید کرتا ہے اور زندگی کے عکس دوسرے دن پورے سماج میں پھیلاتا ہے، ہر برائی کو فلیش مارتے ہوئے اپنی جان جوکھم میں ڈالتے ہوئے ظلمتوں کے عکس بناتا ہے،
غُربت بیماری اور بے بسی کسی گرم تپتے صحرا میں وہ بدنصیب اور بھٹکے ہوئے مُسافر ہیں جو اپنی برسوں کی پیاس بُجھانے زندگی کی ختم نہ ہونے والی طویل مُسافتیں طے کرنے ، گرم آلود ہواؤں کے تھپیڑوں میں ریت کے ایک ٹیلے سے دوسرے ٹیلے کو سر کرتے بوجھل
بلوچستان کی سیاسی تاریخ کے آئینے میں اگر حالات و واقعات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ بلوچستان سیاسی حوالوں سے ایک زرخیز زمین رہی ہے جہاں کی ماؤں نے ہر دور میں اپنے بطن سے ایسے بہادر سپوت جنم دئیے کہ جنہوں نے اپنی دھرتی ماں کی دفاع اور قومی کاز کے لئے اپنے آپ کو وقف کرکے رکھ دیا ۔
ہر وہ شخص جو سندھ میں رہتا ہے وہ سندھ دھرتی کو سندھ اماں کہتا ہے اس لیئے ہم بھی سندھ اماں کے پڑوسی ٹھہرے اس لیئے ہم بلوچستان کے لوگ بھی سندھ دھرتی کو سندھ اماں کا لقب دیتے ہیں۔ آج صبح سویرے اپنے ایک دوکاندار دوست کو فون کیا
کراچی کے ایک بہت بڑے ہوٹل میں جہاں اس ملک کے رئیس زادوں اور بیرونی ممالک سے تشریف فرما بزنس مینوں کی راتیں بڑے سکون کے ماحول میں بسر ہوتی ہیں اورجہاں ہم جیسے مڈل کلاس لوگوں کا داخل ہونا ہمارے لئے ایک اعزاز کی بات سمجھی جاتی ہے
بلوچستان رقبے اور قدرتی وسائل کی فراوانی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جو پسماندگی، غربت اور بیروزگاری کے اعتبار سے بھی پاکستان میں سب سے چھوٹا صوبہ ہونے کے ساتھ سرِفہرست ہے۔
کہتے ہیں کسی بھی معاشرے کے ترقی میں نوجوانوں کاکلیدی کردار ہوتا ہے نوجوان معاشرے میں ریڈھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں جس طرح ریڈھ کی ہڈی کے بغیر انسانی جسم اپنے افعال سرانجام نہیں دے سکتا اسی طرح نوجوانوں کی شمولیت کے بغیر کوئی بھی معاشرہ اپنے اہداف کے حصول میں کامیابی حاصل نہیں
گزشتہ روز پشتونخوا میپ کی جانب سے خان شہید خان عبدالصمد خان اچکزئی کی برسی کی مناسبت سے پشین میں جلسہ منعقد کیا گیاجس سے خطاب کرتے ہوئے پشتونخوا میپ کے سربراہ نے اپنے تقریر کا زیادہ تر حصہ بجائے
پاکستان کی سیاست میں کب کیا ہوجائے کچھ نہیں کہا جاسکتا کیوں کہ جہاں سیاسی ادارے کمزور اور سیاسی قوتیں سیاسی عمل کو آگے بڑھانے کے لئے عسکری قیادت کے تابع نظر آتی ہوں تو وہاں سیاسی و جمہوری اداروں کا کمزور پڑجانا ایک فطری عمل ہے جس کے نتیجے میں جمہوریت اور جمہوری عمل کے حوالے سے کافی سوالات ذہن میں گردش کرتے ہیں ۔ پاکستان کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اس ملک میں کبھی بھی سیاسی استحکام نہیں رہا اور یہاں کی جمہوریت بھی بس ووٹ دینے اور ووٹ لینے کے عمل تک ہی محدود رہی جس کے نتیجے میں یہاں نہ صرف جمہوریت گھٹنوں کے بل چلتی رہی بلکہ جمہوری ادارے بھی نہ پنپ سکے جس کے تناظر میں جمہوری رویے بھی کمزور دکھائی دئیے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری و ساری ہے۔
2دسمبر 2016کو چیف سیکریٹری بلوچستان کی زیر صدارت محکمہ جات کے سیکریٹریز کی میٹنگ کی خبر اگلے روز شہ سرخیوں کے ساتھ اخبارات کی زینت بنی۔خبر یہ تھی کہ صوبے کے مختلف محکموں میں کم از کم 35ہزار آسامیاں خالی ہیں ۔