گیارہ روز تک اسرائیل اور فلسطینیوں میں جاری تنازع میں غزہ میں 240 اور اسرائیل کے 12افراد کی جانیں گئیں اور بالآخر 21مئی کو جنگ بندی کا معاہدہ ہوگیا۔ لیکن حالات دوبارہ کشیدہ ہونے کا خطرہ ابھی ٹلا نہیں۔ ماضی کی طرح اس بار بھی اسرائیل کو جدید ٹیکنالوجی اور عسکری قوت کی وجہ سے مدِ مقابل پر برتری حاصل رہی لیکن ساتھ ہی اس بات کی فوری اہمیت کا ادراک بھی ہوتا ہے کہ کشمیر اور فلسطین جیسے تنازعات کا مستقل حل کتنا ضروری ہوچکا ہے۔ کیوں کہ یہ مسائل کسی بھی وقت قابو سے باہر نکل سکتے ہیں۔
پہلی بلوچی فلم ’’حمل ء ُ ماہ گنج‘‘ کے بانی اور معروف اداکار اور ڈائریکٹرانور اقبال آخری دم تک بلوچ قوم سے گلہ شکوہ کرتے کرتے ہم سے جدا ہوگئے۔ ان کی شکایت جائز تھی۔ اس وقت کی بلوچ قیادت کی جانب سے بلوچوں کو انور اقبال کی بنائی گئی فلم کے خلاف ورغلایا گیا۔… Read more »
اگر ہم کہیں کہ پاکستان میں ایک بھی پارٹی نہیںہے جسکی جڑیں چاروں صوبوں میں موجود ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔سیاستدانوں کیساتھ ملکر بلکہ ان کو زینہ بناکر اسٹیبلشمنٹ نے پورے ملک کے اقتدار پر بلاشرکت غیرے قبضہ کر رکھا ہے ویسے تو یہ سلسلہ کافی عرصے بلکہ ملک کی تشکیل کے ساتھ جاری ہے مگر پہلے اس طرح چیزیں عیاں نہیں تھیں جسے لوگ آجکل نہ صرف محسوس بلکہ دیکھ رہے ہیں۔جنرل ضیاء کے دورسے قبل بقول فیض
بلوچستان کی سیاست میں ایک معقول تعداد ایسے با اثر افراد کی ہے جو اپنے ذاتی اثرورسوخ کی بنیاد پر الیکشن میں کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ ایسے افراد کو ہمارا میڈیا الیکٹ ایبل یا لوٹا کہتا ہے۔ ایسے افراد ہر بننے والی نئی حکومت میں اس خواہش کے ساتھ شامل ہو جاتے ہیں کہ انہیں کوئی وزارت یا عہدہ ملے گا جس کے ذریعے وہ اپنے ذاتی اثر و رسوخ میں اضافہ کر سکیں گے اور ترقیاتی فنڈز ملیں گے جس کے ذریعے وہ اپنے ووٹرز کو مطمئن رکھ سکیں گے۔ریاست عرصے سے بلوچستان کو ڈمیوں کے ذریعے چلانے کی کوشش کررہی ہے۔
حال ہی میں بلوچستان کی سیاست نے گرگٹ کی طرح رنگ بدلنا شروع کیاہے، اختلافات کی انتہا یہاں تک آ پہنچی کہ اسمبلی کو بلاک کر دیا گیا۔ نام نہاد سیاست دان اسمبلی پر قبضہ جماکر بیٹھ گئے اور یہ لوگ عوامی مینڈیٹ لے کر اسمبلی میں اپوزیشن نشستوں پر براجمان ہیں۔
بلوچستان کاضلع مستونگ باغات کی وجہ سے مشہور ہے جہاں تقریباً ہر طرح کے پھلوں کی پیداوار ہوتی ہے۔ یہاں کا کیک بھی اپنی نوعیت کا ایک سوغات سمجھا جاتا ہے جس کی مانگ بیرونی ممالک میں بھی ہے۔ جبکہ یہ علاقہ پولیس مقابلوں کے حوالے سے بھی کافی بدنام ہے۔ جہاں اب تک بے شمار سیاسی کارکنان بھی مارے گئے ہیں۔ یہاں ایک نامعلوم گروہ تعلیم نسواں کے خلاف سرگرم عمل بھی ہے۔ گزشتہ روز مستونگ میں پڑنگ آباد کے علاقے سورگزر ریلوے پھاٹک کے قریب خواتین اساتذہ کی اسکول وین پر موٹرسائیکل سواروں کی فائرنگ سے چار خواتین زخمی ہوگئیں۔
ایک دور میں حکومت وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا تھا جس دوران بلوچستان میں امن وامان قائم ہوا۔ میرٹ کا تقدس بحال ہوا،عوام کو روزگار مہیا کیا گیا اور نئی درسگاہیں تعمیر کی گئیں۔ڈاکٹر مالک بلوچ بلوچستان کے چھوٹے بڑے مسائل سمیت قومی مسائل کو بھی ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کوششیں کرتے رہے جن میں سر فہرست لاپتہ افراد کا مسئلہ تھا لیکن اس حوالے سے اپنی بے بسی کا اظہار وزرات اعلی ٰکے دور میں کیا۔آپ ایک عوامی اور مخلص لیڈر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔آپکی سیاسی جدوجہد کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے ڈھائی سالہ دور میں صحافیوں نے غیر جانبدارانہ تجزیے بھی انکے حق میں کئے اور کئی مقامات پر انکے سیاسی حریفوں نے بھی انکی مختصر مدت جوکہ 2013 سے 2015 تک کے ڈھائی سالہ دورِ حکومت کی تعریفیں کیں۔
بلوچستان کو صوبے کا درجہ 1970 ء کے عام انتخابات سے قبل ون یونٹ کے خاتمے کے نتیجے میں ملا تھا 1970 ء کے عام انتخابات کے بعد وزیر اعلیٰ سر دار عطااللہ خان کی مخلو ط صوبائی حکومت صوبائی کے وزیر خزانہ میر احمد نوازبگٹی نے پہلا صوبائی بجٹ برائے مالی سال 1972-73 جون 1972 ء میں پیش کیا تھا،بجٹ کا مجموعی ہجم 15 کروڑ 88 لاکھ روپے تھا۔
بلوچستان کی تاریخ و تمدن اور ثقافت وقبائلیت ملک کے دیگر صوبوں سے ہمیشہ ہی الگ تھلگ اور مختلف رہی ہیَ بلوچ مئورخین کے مطابق بلوچ ہزاروں سال قدیم قوم ہے۔ جدید دور میں بھی بلوچستان میں قبائلی رسم و رواج اور اقدار و روایات کو ہی اولیت دی جاتی ہے۔ بلوچستان ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں غربت پسماندگی احساس محرومی کی شرح دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ ہے اب بھی بلوچستان میں لڑکیوں کی تعلیم کو بلوچ معاشرے میں معیوب سمجھا جاتا ہے جبکہ اس کے برعکس قبائلی معاشرے میں آج بھی خواتین کو انتہائی اہمیت اور عزت و تکریم دی جاتی ہے۔
آج جس قوم اور ملک نے ترقی کی ہے تو صرف اور صرف تعلیم کی بدولت۔تعلیم ایک ایسا ہتھیار ہے جس کو استعمال میں لاکر آپ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔تعلیم انقلاب،خوشحالی اور امن لاسکتی ہے۔لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ہزاروں کی تعدار میں بچے تعلیم سے محروم ہیں۔بلوچستان کے بچوں کو پڑھنے کا بہت شوق ہے لیکن حکومت کی اس طرف توجہ نہ دینے کی وجہ سے تعلیم جیسی عظیم نعمت سے محروم ہیںحالیہ اقتصادی سروے میں انکشاف کیاگیاہے کہ صوبوں میں سب سے کم شرح خواندگی بلوچستان کی 46فیصد ہے۔