بلوچستان میں روز اول سے ہی ہر صوبائی حکومت نے عوام کی صحیح ترجمانی کرنے اور مسائل کو حل کرنے کے بجائے وفاق اور طاقتور طبقات کی خوشنودی کیلئے عوام پر حکمرانی کی ہے جس کا واضح ثبوت ہر سال بجٹ سے قبل بلوچستان کی ترقیاتی فنڈز کا اربوں روپے لیپس کرا کر ان آقاؤں کی خوشنودی حاصل کی جاتی رہی ہے۔ صد افسوس عوامی بجٹ لیپس کرنے والے ان حکمرانوں نے بلوچستان کی بربادی، تباہی، بد حالی، پسماندگی اور احساس محرومیوں کو ختم کرنے کے بلند و بانگ دعوے،وعدے اور اعلانات کرنے کے باوجود اربوں روپے کی ترقیاتی فنڈز کولیپس کراکر بلوچستان کے عوام کے حقوق پر شب خون مارنے کے مترادف کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ بلوچستان کی صوبائی حکومت باالخصوص وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان، چیف سیکرٹری بلوچستان محکمہ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ،محکمہ خزانہ اور صوبائی بیوروکریسی کا بلوچستان سے مخلصی کا اعلیٰ اور بے مثال ثبوت ہے۔
بلوچستان کا نام سنتے ہی قدرتی ذخائر، بے شمار پہاڑی سلسلے، چشمہ و کاریزات اور دیگر انعاماتِ خداوندی کا تصور ذہن میں گونجنے لگتی ہے کہ یہ سرزمین خدا کی خاص خصوصی نظر کرم اور مہربانیوں کا گہوارہ ہے۔ جہاں یہ سرزمین زیر زمین ہزاروں ذخائرِ معدنیات و قیمتی اشیاء سے مالامال ہے تو دوسری طرف محل و وقوع کے اعتبار سے تین ملکوں سے ملنے والی ایک ایسا خطہ بھی ہے جہاں ملک کے سمندری حدود اور آبی بندرگاہیں وقوع پذیر ہے۔
اس وقت گوادر کے نوجوانوں کی جانب سے گوادر یونیورسٹی کے قیام کے لئے سوشل میڈیا کے تمام ذرائع پر #GwadarNeedsUniversity کی ہیشٹیگ کی کمپین جاری ہے۔ بالخصوص سماجی رابطے کی سب سے موثر ترین ویب سائیٹ ٹویئٹر پر یہ کپمین زوروں پر ہے۔ اس کے علاوہ گوادر یونیورسٹی کی کمپین کا پلے کارڈ گوادر کا ہر شہری تھامے ہوئے سوشل میڈیا پر گوادر یونیورسٹی کے قیام کا مطالبہ پیش کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
سیاسی جماعتیں اگر وقت و حالات کے ساتھ اپنا جائزہ لینے سے قاصر رہے ،آئین و منشور کو فراموش کرتے رہے،آئین کو عمل میں لانے سے گریز کرتے رہے، افکار و نظریات پس منظرمیں چلے گئے،اظہار رائے کے آزادی کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے،جمہوریت پسندی محض خواب ہی رہے ،تنقید برائے تعمیر خود ساختہ منصبی و شخصی وقار و آبرو کی بے توقیری سے مربوط رہے،سیاسی سوال منصبی و شخصی مخالفت سے منسلک ہوتے رہے،احتسابی عمل معیوب سمجھے جانے لگیں،کارکناں کی خدشات و تحفظات کی کوئی وقعت نہ رہے،آئین و منشور سے منحرف اراکین، عہدیداران اور نماہندگان کے خلاف موئثر تادیبی کاروائی(سزا و جزا کا عمل)ماند پڑھ جائے، تو یقینی طور پر ایسی سیاسی جماعتوں کو وقت کی بے رحم موجیں بہا کر لے جاتی ہیںیا حالات کی سخت تپش انہیں پگھلا دیتی ہے۔
بلوچستان جہاں ہمیشہ سے ظلم و جبر کا راج رہا ہے انگریز استعمار کی دور حکمرانی سے لے کر ہر آنے والے سول وڈکٹیٹر حکمرانوں نے بلوچ ماں دھرتی اور بلوچ قومی تشخص کو مٹانے کیلئے اپنی تمام تر جملہ توانائیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے بلوچ وطن کے فرزندوں کو ظلم و جبر و تشدد کا نشانہ بنایا مسخ شدہ لاشوں کے تحفے دیئے گئے گرفتاریوں کے بعد غائب کردیا گیا ہزاروں کی تعداد میں بلوچ فرزندوں کو اپنے مادر وطن سے زبردستی بے دخل کیا جاتا رہا قدرتی دولت سے مالا مال دھرتی پر دائمی قبضہ گیری کو برقرار ، جاری آپریشن سیاسی کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ کے نتیجے میں آگ و خون کی ہولی کا دور دورہ رہا بلوچستان کی تاریخ میں ایسے نڈر سپوتوں کی طویل فہرست ہے۔
بلوچستان میں مری ایجنسی کے علاقے کوہ جاندران اور ماڑتل کے مقام پر گیس کا بڑا ذخیرہ دریافت ہوا ہے۔ بتا یا جا رہا ہے کہ گیس کا یہ ذخیرہ ضلع ڈیرہ بگٹی کے علاقے سوئی میں دریافت ہونے والے ذخیرے سے کئی گنا بڑا ہے۔ دونوں مقامات سے نکلنے والی گیس کے نئے ذخائر دریافت ہونے کے بعد پاکستان کو ایران اور ترکمانستان سے گیس خریدنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ بلوچستان کے ذخائر پاکستان کی ضروریات آئندہ 50 سالوں تک پوری کرسکیں گے۔
پاکستان کی وفاق کی سطح پر کام کرنے والی نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی نے حال ہی میں معاشی اعداد و شمار جاری کیے ہیں جس میں جی۔ڈی۔پی کی شرح کو تقریباً چار فیصد ظاہر کیا گیا ہے۔پچھلے سال جی ڈی پی کی شرح منفی 0.4 فیصد تھی جو اکیس کروڑ 24 لاکھ 80 ہزار آبادی والے ملک کے لیے انتہائی کم تھی۔تازہ اعداد و شمار میں جی۔ڈی۔پی کی اس شرح کو لے کر کئی معاشی ادارے حیران ہیں۔عالمی بینک کی طرف سے جاری کردہ گلوبل اکانومی رپورٹ2021 میں بتایا گیا تھا کہ پاکستانی معیشت کی شرح نمو محض نصف فیصد رہ سکتی ہے جب کہ خود حکو مت نے رواں سال کے لیے معاشی شرح نمو کا ہدف2.1 فیصد مقرر کیا تھا۔حکومت کی جانب سے جاری کردہ تازہ اعداد و شمار کے مطابق مالی سال میں اہم فصلوں کی شرح نمو 4.65 فیصد رہی اور یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ گندم،چاول اور مکئی کی تاریخی پیداوار ہوئی ہے۔کسی بھی ملک کی معیشت اسکے موجود وسائل پر منحصر ہوتی ہے۔پاکستان کی معیشت میں زراعت کا بڑا عمل دخل ہے۔
آج دنیا بھر میں ماحول کے تحفظ کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد لوگوں میں زمین کے وسائل، ماحول، اور فطرت کے تحفظ کے حوالے سے شعور بیدار کرنا ہے، اس سال عالمی یوم ماحولیات کی تھیم”قدرتی ماحول کی بحالی“ رکھی گئی ہے۔ عالمی سطح پر حکومت پاکستان کی جانب سے قدرتی ماحول کی بحالی کے لیے شروع کردہ دس بلین ٹری منصوبے کو عالمی سطح پر سراہا جارہا ہے اور اسی وجہ سے پاکستان آج کے اس عالمی یوم ماحولیات کی میزبانی کررہاہے،جس سلسلے میں مختلف تقریبات کا انعقاد کیا جارہاہے۔
عالمی یوم ماحولیات جو ہر سال 5جون کو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے سے قبل ماحولیات کے ماہر عالمی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر عالمی درج حرارت محض دو درجہ سینٹی گریڈ بھی ہوا تو برف کی چٹانوں کا صفایا ہوجائے گا۔ ان چٹانوں پر بڑی تعداد میں سمندری مخلوقات کا انحصار ہے جو غذائی زنجیر یا فوڈ چین میں اہم کردار ادا کرتی ہیں اس عمل سے سمندروں کی سطح 8فٹ تک بلند ہونے کا خدشہ ہے جس دنیا کے درجنوں سالی شہر سمند برد ہو جائیں گئے جس کے نتیجے میں ان شہوروں کے مکینوں اپنی زندگی بچانے کے لیے نقل مقانی کرنی پڑئے گی جو کہ ایک بہت بڑا انسانی المیہ ہوگا اس تباہی سے بچنے کے لیے دنیا بھر اور خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک کو متبادل انرجی نظام سمیت زمینی درجہ حضرات کم کرنے والے ترقیاتی منصوبے بنانے ہونگے، ہماری آج کی رپورٹ میں SDGs کے ماحول سے متعلق گولز 13.14.15کے ٹارگٹس تک پہنچنے بلوچستان میں ہونے والی کوششوں کا جائزہ لیا جارہا ہے،
ریاست قلات کی تاریخ تقریباً پانچ سو سال سے زائدعرصے پرمحیط ہے۔خان آف قلات نے بلوچستان، سندھ اور پنجاب کی بلوچ ریاستوں کو ایک ’’ بلوچ کنفیڈریشن‘‘ کا ڈھانچہ دیا۔ قلات خانیت قلات کا دارالحکومت تھا۔ تاریخی طور پرقلات کوقیقان کہا جاتا تھا۔