ایسے طلبا کثیر تعداد میں ہیں جو کہتے ہیں کہ جب اگلی کلاس میں جائیں گے تو پھر محنت کریں گے لیکن جب وہ اگلی کلاس میں جاتے ہیں تو پھر یہی کہتے ہیں کہ اگلی کلاس میں جاکر پھر محنت کریں گے۔ اسی طرح بڑی عمر کے بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم جلد نماز پڑھنا شروع کریں گے، لیکن اْن کی نمازیں شروع نہیں ہوتیں۔ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہم نیک ہوجائیں گے، لیکن وقت گزرتا رہتاہے اور وہ نیکیاں نہیں کما پاتے۔ ہم زندگی میں بیشمار مرتبہ پلان کرتے ہیں کہ ہم یہ کریں گے، ہم وہ کریں گے، لیکن نہیں کرتے۔ جب وقت گزرتاہے تو پھر پچھتاوا رہ جاتا ہے۔
رمضان المبارک کے آخری عشرے میں 27 رمضان المبارک کو عید سے چند روز قبل نماز تراویح کے دوران اسرائیلی فوج نے مسجد اقصیٰ میں نمازیوں پر دھاوا بول دیا۔مسجد کی بے حرمتی کی،نمازیوں پر وحشیانہ تشدد کیا،فلسطینی بچوں،عورتوں اور نوجوانوں پر ربڑ کی گولیوں سے فائرنگ کی۔اس دوران متعدد فلسطینی زخمی اور درجنوں گرفتار ہوئے۔اس بربریت کے پیچھے محرکات یہ ہیں کہ اسرائیلی حکومت نے پچھلے دس روز سے کریک ڈاؤن کا سلسلہ شروع کر رکھا تھاجس کا مقصد شیخ جراح کے محلے میں فلسطینیوں کے گھروں،دکانوں اور کاروباری مراکز پر قبضہ کرنا ہے۔دس دن قبل اسرائیلی سپریم کورٹ اور یہودی آباد کار ایسوسی ایشن کے درمیان ایک معاہدے کی سماعت کے بعد فلسطینیوں سے اس جگہ کو خالی کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔یہ مقدمہ فلسطینی خاندانوں کے خلاف طویل عرصے سے جاری ہے جس کا مقصد فلسطینیوں کو ان کے اپنے گھروں سے بے دخل کرنے ہے۔آج اکیسویں صدی میں اس علاقے کے مجبور لوگ یہودیوں کے مظالم تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
دہشت گرد صیہونی اسرائیلی ریاست کی جانب سے ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ اب تک غزہ کی پٹی پر اسرائیلی بمباری سے دو سو سے زائد فلسطینی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جن میں پچاس سے زیادہ چھوٹے بچے بھی شامل ہیں جبکہ سینکڑوں زخمی ہیں۔ اسرائیلی بمبار طیاروں نے حماس کی قیادت کو نشانے بنانے کی آڑ میں کئی رہائشی عمارتوں پر بمباری کر کے انہیں زمین بوس کردیا جس سے ہلاکتوں کی موجودہ تعداد کہیں زیادہ بڑھنے کے امکانات ہیں۔ اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اعلان کیا ہے کہ موجودہ کاروائیاں اتنی جلدی ختم نہیں ہوں گی اور ’اسلامی جہاد‘ اور حماس کو اپنی جارحیت کی قیمت چکانا ہوگی۔ بظاہر حالیہ بحران کا آغاز اس وقت ہوا جب 2مئی کو مشرقی یروشلم کے علاقے شیخ جراح میں آباد چھ فلسطینی خاندانوں کو اسرائیلی حکام کی طرف سے اپنے گھروں کو خالی کرنے کے احکامات دیئے گئے جبکہ 28 دیگر خاندانوں کو اسرائیلی عدالت سے بے دخلی کے احکامات 9 مئی کو ملنے والے تھے۔ شیخ جراح اور دیگر عرب اکثریتی علاقوں میں بے دخلی کے شکار فلسطینی خاندانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے مظاہرے شروع ہوئے۔ پولیس، فلسطینی مظاہرین اور اسرائیلی آباد کاروں کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہوا تو غزہ کی پٹی سے حماس نے بھی مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی پولیس کی جانب سے شیلنگ اور فائرنگ کے ردعمل میں قریبی اسرائیلی شہروں پر راکٹ داغنے شروع کیے جس کے جواب میں غزہ کے محکوم فلسطینیوں پر صیہونی ریاست نے اندھا دھند بمباری کا سلسلہ شروع کیا۔ بنیامین نیتن یاہو کی موجودہ بحران زدہ حکومت (جس کے فارغ ہونے کے امکانات بھی موجود ہیں) کی حالیہ کیفیت کو دیکھتے ہوئے یہ بات بعید از قیاس نہیں کہ اسرائیلی وزیر اعظم کلازوٹز کے اس آزمودہ فارمولے پر چل رہے ہوں کہ اندرونی بحرانات کو ٹالنے کے لیے بیرونی جنگ شروع کی جائے۔
پنجگور کا لفظی معنی پنج (پانچ) گور (قبر) یعنی پانچ قبریں ہے۔اس کانام پنجگور اس طرح پڑا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ پانچ مقبرے اصحابہ کرام کی ہیں۔ تاہم مورخ ان پانچ صحابہ کرام کے نام بتانے سے قاصر ہیں اور نہ ہی محکمہ آثار قدیمہ نے ان پانچ گمشدہ قبروں کو دریافت کیا۔ یہ قبریں کہاں واقع ہیں۔ ان کی نشاندہی بھی ایک معمہ بن چکی ہے۔جس طرح آج پنجگور کی تاریخی قبریں لاپتہ ہیں۔ اس طرح ان کی آدھی آبادی کو حالیہ مردم شماری کے ذریعے لاپتہ کردیاگیا۔ پنجگور کی آبادی کو کم دکھایاگیا جبکہ ان کی آبادی کئی گنازیادہ ہے۔ ضلع پنجگور میں دو صوبائی نشستیں ہوا کرتی تھیں، ان کو کم کرکے ایک نشست کردی گئی جبکہ دوسری صوبائی نشست کو ضلع آواران میں ڈال دیاگیا جس کی وجہ سے پنجگور ضلع انتظامی اور مالی طور پر کمزوراور غیرمستحکم ہوگیا۔ اس اقدام سے ترقیاتی فنڈز میں کمی آگئی جس کے باعث پسماندہ ضلع مزید پسماندگی سے دوچار ہوگیا۔ سڑک، تعلیم، صحت، بجلی، پانی سمیت دیگر بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی نے ایک سونامی کی شکل اختیار کرلی ہے، تمام تر بنیادی سہولیات عوام کی دسترس سے باہر ہوگئی ہیں۔
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ جامعات معاشرے کی تعلیمی ،تحقیقی، سماجی معاشرتی، جمہوری ترقی کیلئے بنیادی کردار ادا کرتی ہیں اور عملی زندگی کیلئے نوجوانوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرکے ہر شعبہ زندگی کیلئے بہترین لیڈر شپ مہیا کرتی ہیں یہ سب تب ہی ممکن ہے جب جامعات مکمل طور پر خودمختار اور خود کفی ل ھو اور ان میں تعلیم وتحقیق کی ترقی کیلئے فیصلے ومنصوبہ بندی آزادانہ وجمہوری انداز سے تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے ہو،ا سی مقصد کیلئے منتخب اسمبلیوں یعنی صوبائی وقومی اسمبلی سے ان کو چلانے کے لئے ایکٹس پاس کی جاتی ہیں تاکہ جامعات کے پالیسی سازاداروں یعنی سینٹ ،سینڈیکیٹ ،اکیڈمک کونسل، فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی ، بورڈ فار ایڈوانس سٹڈیز اینڈ ریسرچ اور سلیکشن بورڈ میں اساتذہ ،طلباء وطالبات ممبران ،صوبائی اسمبلی وسول سوسائٹی خصوصاً عدالت عالیہ و پبلک سروس کمیشن کی منتخب نمائندگی ہوتا۔
ہمیں دین کے ہرشعبے میں حضور ؐکی تعلیمات کی پروی کرنی چاہئے۔ دین کے شعبوں میں سے ایک شعبہ دعوت وتبلیغ اور وعظ ونصیحت کا ہے۔ یہ بہت اہم شعبہ ہے قرآن نے جا بجا اس کی اہمیت اور طریقہ کار بتایا ہے۔ جب کسی کو اسلام کی دعوت دو، تو ان کے ساتھ نرمی برتو، سخت لہجے سے اجتناب کرو۔حضرت موسی علیہ السلام کو اللہ تعالی نے فرمایا کہ فرعون کے ساتھ نرمی سے بات کرو۔ شاید کہ وہ بات مان جائے۔
سات بیٹیاں پیدا کر لیں لیکن ایک بیٹا نہیں پیدا کر سکی برے طریقے سے اپنی بیوی کو پیٹتے ہوئے ایک خاوند کے اپنی بیوی کو بولے جانے والے یہ الفاظ سن کر دِل زارو قطار رونے لگا ذہن میں ہزاروں سوالات آ نے لگے دِل چاہا کہ پوچھا جائے کیا تمہاری ماں جس نے تمہیں جنم دیا وہ کسی کی بیٹی نہیں ھے؟ کیا تمہاری بیوی جس سے تم بیٹا پیدا کرنے کی خواہش کرتے ہو وہ بیٹی نہیں ھے؟ پِھر بیٹی کے پیدا ہونے پر کسی کی بیٹی پر اتنا ظلم کیوں؟ بیٹی کے پیدا ہونے پر اظہار افسوس کیوں؟ صرف اتنا ہی نہیں کچھ عرصہ پہلے لاہور میں باپ بیٹے نے مل کر اپنی بیٹی کو صرف اِس لیے قتل کر دیا کیوں کے وہ گول روٹی نہیں پکا سکتی تھی ایک بھائی نے زیادتی کا شکار ہونے پر اپنی بہن کو قتل کر دیا بیروزگاری کے ڈر سے بیٹی کو منحوس سمجھ کر زندہ دفنا دیا گیا _ ہزاروں نہیں لاکھوں ایسے قصے سننے اور دیکھنے کو ملتے ہیں _ کیا قصور تھا اس بیٹی کا جو بیروزگاری کے خوف سے زمین میں گاڑھ دی گئی؟ کیا قصور تھا 7 سالا زینب کا جسے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا؟ کوئی ہے۔
اپنے اشتعال انگیزمذہب مخالف مواد کی وجہ سے بدنام فرانسیسی میگزین ’شارلی ہیبڈو‘ پر 2015میں توہین آمیز خاکے شائع کرنے کے بعد حملہ ہوا۔ گزشتہ برس ستمبر میں اس میگزین نے پھر انہی خاکوں کی دوبارہ اشاعت کی۔ اکتوبر میں فرانس کے صدر میکخواں نے اس میگزین کے حق میں بیان دیا جس پر پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کا ردعمل سامنے آیا۔ لاکھوں ہزاروں افراد پر مشتمل مظاہرے کیے گئے اور فرانس کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی بھی مہم چلائی گئی۔ فرانس میں ریاستی سیکیولرزم یا ’لاسیت‘ کا تصور کو اس کی قومی شناخت میں مرکزیت حاصل ہے۔ تعلیمی اداروں اور عوامی مقامات پر آزادی اظہار کو وہ اس تصور کا حصہ سمجھتے ہیں۔ کسی خاص مذہب کے جذبات کا خیال رکھنے کو وہ اپنی اس قومی شناخت کے منافی تصور کرتے ہیں۔ فرانسیسی سیکیولرزم تمام مذاہب کو مسترد کرتا ہے۔ اس میں اسلام بھی شامل ہے تاہم یہ رویہ صرف اسلام تک محدود نہیں۔
کہتے ہیں کہ ایک شخص حامد کرزئی کے پاس پہنچا، اور فرمائش کی کہ انہیں افغانستان میں ریلوے کا وزیر لگا دیا جائے۔ کرزئی بے چارے ششدر رہ گئے۔جواب میں کرزئی نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ میں تمہیں ایسے ہی ریلوے کا منسٹر لگا دوں۔ بندے نے کہا کیوں نہیں لگا سکتے، کرزئی نے کہا کہ ” ہمارے یہاں ریلوے کا نظام ہی نہیں ہے تو میں کیسے تمہیں ریلوے کا وزیر لگا دوں۔” بندے نے جواب میں کرزئی سے کہا، ” اگر پاکستان میں قانون کا وزیر ہو سکتا ہے تو افغانستان میں ریلوے کا وزیر کیوں نہیں ہو سکتا؟ِ
دنیا کا کوئی بھی ملک یا کوئی آزاد ریاست ہو یا پھر کوئی مفتوحہ علاقہ وہاں کا نظام وہاں کے طاقتور اداروں یعنی کہ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہوتا ہے ہمارا ملک پاکستان دنیا میں ایک خود مختار ملک جانا جاتا ہے۔ اس کی ترقی چاہے تعلیم و صحت کے اعتبار سے ہو یا زراعت و تجارت کے حوالے سے۔ کوئی بھی سرکاری یا نیم سرکاری ادارہ ہو اس پر خودمختار اور طاقتور ادارے اسٹیبلشمنٹ کی کڑی نگاہ رہتی ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا اور دفاعی ادارہ پاک آرمی ہے جو کہ سپاہی سے جنرل تک عالمی سطح پر مقبول ہے کہ یہ اپنے ملک کا سب سے وفادار ادارہ ہے۔ اس نے نہایت ہی نیک نیتی خوش اسلوبی اور دیانتداری سے بلا رنگ و نسل ملک و قوم کی خدمت کی ہے۔ حالیہ سال 2021 میں سیاسی جماعتوں کے سیاسی اختلافات دن بدن بڑھ رہے تھے۔ کچھ سیاسی جماعتوں نے آپس میں اتحاد کر لیا اور اپنے اس اتحاد کو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم)کا نام دیا اور ایک سیاسی و مذہبی پارٹی جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمن کو پی ڈی ایم کا مرکزی سربراہ بنایا۔