سنکیانگ، جوکہ چین کا شمال مغربی حصہ ہے، ایک ایسے خطے کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے جو معاشی ترقی کو انتہائی اہمیت دے رہا ہے اور جس نے گزشتہ کئی برسوں سے اس سرزمین کے باسیوں کو اطمینان اور مسرت کا احساس دلانے میں مدد فراہم کی ہے۔یہ خطہ ترقی کے اس راستے پر گامزن رہتے ہوئے جس کا اعلان گزشتہ پانچ سالہ منصوبوں میں کیا گیا تھا، چین کے مغربی حصے میں ایک مستحکم معاشی مرکز ابھرکر سامنے آیا ہے جو اپنی سرحدوں کو مختلف ملکوں سے منسلک کررہا ہے۔اس خطے کے معاشی استحکام نے مقامی باشندوں کو مختلف شعبوں میں ترقی اور نشونما کے عمل کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کیے ہیں۔
ڈیرہ بگٹی بلوچستان کا واحد ضلع ہے جو سیاسی طورپر یتیم ضلع ہوچکا ہے۔ یہ یتیمی سیاسی اور سماجی قیادت کے فقدان کی وجہ سے ہوئی جس سے ضلع میں سیاسی، سماجی اور معاشرتی مسئلوں نے جنم لینا شروع کیا۔ یہ سیاسی خلاء2006 کو بزرگ سیاستدان نواب اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد شروع ہوا۔ کسی زمانے میں یہیں سے بلوچستان اور وفاقی حکومتیں بنتی اور گرتی تھیں۔ جہاں وزیراعظم، صدر مملکت، وزیراعلیٰ سمیت وزرا ء کی قطاریں لگی رہتی تھیں،ان کی حاضریاں ہوتی تھیں۔ سیاسی ہمدردیاں اور حمایتیں لی جاتی تھیں۔ سیاسی جماعتوں کی نظریں ڈیرہ بگٹی پر جمی ہوتی تھیں۔ یہ ضلع ملکی سیاست کا سرچشمہ ہوا کرتا تھا۔ نواب صاحب کی شخصیت کا سب سے اہم پہلو اس کی سوچ تھی سوچ کبھی نہیں مر سکتی۔ سوچ ایک سے دوسرے تک اور بالآخر نسلوں میں منتقل ہوجاتی ہے۔
اس میں یہ بھی کہا گیا کہ، ‘ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو انکریمینٹل (کم لاگت والی) ہاؤسنگ اسکیم کے لیے زمین کی فراہمی دراصل ملک ریاض کے اس یجنڈا کو پورا کرنے کی ایک چال تھی جس کا مقصد ریاست اور عوام کو نقصان پہنچا کر اپنی دولت کو بڑھانا تھا’۔
کیا جمہوریت اپنی جگہ مکمل ہے؟ نہیں جمہوریت اپنی جگہ ہرگز مکمل نہیں ہے اور نہ کبھی مکمل ہو سکتی ہے، دنیا میں کوئی بھی شے کامل نہیں ہوتا،ہر شے میں خوبیاں اور خامیاں ہوتی ہیں چناچہ اشرافیہ اور آمریت کی طرح جمہوریت میں خوبیوں کے ساتھ ساتھ خامیاں بھی ہوتی ہیں لیکن اشرفیہ اور آمریت کی نسبت جمہوریت کی خوبیاں زیادہ اور خامیاں کم ہیں۔ ہیراکلائٹس کے مطابق بْری چیز وہ ہے جس کی خامیاں خوبیوں سے زیادہ ہوں اور اچھی چیز وہ ہے جس کی خوبیاں خامیوں سے زیادہ ہوں اس لیے جمہوریت کو مجموعی طور پر صرف اچھا سیاسی نظام سمجھا جاتا ہے بلکہ سب سے اچھا سیاسی نظام بھی سمجھا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اشرافیہ یا آمریت چاہے جتنی بھی اچھی کیوں نہ ہو، مگر وہ جمہوریت کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ایڈورڈ کارپینٹر نے کہا تھا کہ: اے جمہوریت! تمہارے عیوب کے باجود میں تم سے محبت کرتا ہوں
24 اپریل 2021 کی ایک اخباری خبر کے مطابق جمعہ کے روز بلو چستان اسمبلی اجلاس میں نصراللہ زیرے نے وزیر تعلیم کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہاکہ سابقہ دور حکومت میں مادری زبانوں بلوچی، براہوئی، پشتو، سندھی اور فارسی اور دیگر کو لازمی مضمون کے طور پر پڑھانے کی بابت با قا عدہ طور پر اسمبلی میں قانون پاس ہوا تھا اور اس بارے سکولوں میں پرا ئمری کی سطح تک پڑھانے کا سلسلہ بھی شروع ہوا مگر اب شنید میں آیا ہے کہ حکومت مادری زبا نوں کی تعلیم کا سلسلہ ختم کر رہی ہے لہذا اس بارے تفصیل فرا ہم کی جائے۔اس پر صوبائی وزیر تعلیم سردار یار محمد رند نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت نے مادری زبانوں کی تعلیم کا سلسلہ بند کر نے سے متعلق کوئی اقدام نہیں کیا البتہ قومی اسمبلی میں یکساں نصاب لانے کی قرارداد منظور ہوئی ہے اگر وہاں سے قانون منظورہو گیا تو صوبہ اسکے بر عکس قانون پاس نہیں کر سکتا۔ میری خواہش ہے کہ مادری زبانوں میں بنیادی تعلیم دی جائے تاکہ چھو ٹی زبانیں زندہ رہیں۔انکی خواہش پر اس توجہ دلاؤ نو ٹس کے جواب کو آ ئندہ اجلاس تک ملتوی کر دیا گیا تاکہ اس دوران مر کز اور صوبے سے معلومات اکٹھی کر کے ایوان کو فراہم کی جا سکیں۔کیا مرکز تعلیم کے شعبے اور خاص کر مادری زبان کی تعلیم کے حوالے سے صوبوں میں مدا خلت کا حق رکھتی ہے کہ نہیں،آ ئین کا جا ئزہ لینا ضروری ہے۔1973 کے آ ئین کے آر ٹیکل 251 سب سیکشن 3 کہتا ہے،
بحریہ ٹاؤن کراچی کے زیر قبضہ زمین پر برسوں سے آباد لوگوں کے لیے پیغام واضح ہے: زمین چھوڑو یا مرجاؤ۔2019ء کے اواخر میں اسلام آباد میں جاری کابینہ اجلاس کے دوران معمول سے کچھ ہٹ کر ہوا۔ وزیرِاعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کو ‘ایجنڈا سے ہٹ کر’ ایک معاملہ پیش کرنے کی اجازت دی گئی۔ ان کے پاس ایک بند لفافہ تھا، انہوں نے بتایا کہ اس لفافے میں ایک غیر اعلانیہ معاہدہ موجود ہے۔یہ معاہدہ کروڑوں پاؤنڈ کے تصفیے کے بارے میں تھا جو برطانوی ادارے نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے حال ہی میں ملک ریاض کے ساتھ کیا تھا۔ اجلاس میں موجود ایک ذریعے کے مطابق، ”(انسانی حقوق کی وزیر) شیریں مزاری نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ، ‘جب ہمیں یہ معلوم ہی نہیں کہ اس میں کیا لکھا ہے تو آخر ہم کس بات کی منظوری دے رہے ہیں؟’ ہمیں بتایا گیا تھا کہ اگر اسے کھولا گیا تو اس کے قومی سلامتی پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور برطانوی حکومت بھی تحفظات رکھتی ہے”۔
سال2013کے انتخابات کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر نواب ثناء اللہ زہری نے حکومت سازی کیلئے رابطے شروع کیے اور مسلم لیگ (ق) کے صوبائی صدر جعفر خان مندوخیل نے ایک وزرات کے عیوض نواب ثناء اللہ زہری کی حمایت کا اعلان کیا اور جمعیت علماء اسلام سے بھی رابطے جاری تھے کہ اچانک نیشنل پارٹی کے رہنماء ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور پشتونخواء ملی عوامی پارٹی کے رہنماء عبدالرحیم زیارتوال بھی نواب ثناء اللہ زہری کے پاس پہنچے اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا حصہ بننے کا اعلان ایک پریس کانفرنس کے ذریعے کیا اور مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر نواب ثناء اللہ زہری نے خود کو بلوچستان کا وزیر اعلیٰ نامزد کیا۔نیشنل پارٹی کے سربراہ مرحوم حاصل خان بزنجو اور پشتونخواء ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی اسلام آباد میں بیٹھے میاں نواز شریف کو منانے میں مصروف تھے انھیں حکومت سازی کی اطلاع ملی درحقیقت وہ بھی اس کھیل میں شامل تھے اور انھوں نے میاں نواز شریف کو اس بات پر قائل کیا کہ بلوچستان کو ایک مری معاہدے کی ضرورت ہے اور معاہدہ کرکے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو اڑھائی سالہ وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائر کیا گیا جبکہ محمد خان اچکزئی گورنر بلوچستان تعینات ہوئے، اڑھائی سال کے دوران مسلم لیگی رہنماؤں کی اپنے اتحادیوں (نیشنل پارٹی اور پشتونخواء ملی عوامی پارٹی) سے سرد جنگ جاری رہی جبکہ مسلم لیگ (ق) اپنی ایک وزرات لیکر خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی رہی، اڑھائی سال بعد مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر نواب ثناء اللہ زہری وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے تو و ہی خاموش اتحادی نواب ثناء اللہ زہری کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے رہے کیونکہ میر عبدالقدوس بزنجو بضد تھے کہ انھیں صوبائی کابینہ میں شامل کیا جائے جس سے وزیر اعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری انکار کرکے انھیں قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ جعفر مندوخیل سے وزارت لیکر ہی انھیں دیا جاسکتا ہے اس دوران حکومت کے اہم اتحادی نیشنل پارٹی اور پشتونخواء ملی عوامی پارٹی خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے رہے۔
لگتا ہے اس بار جام صاحب کے سر سے بڑوں نے اپنی دست شفقت اٹھا لی ہے ،ویسے بھی باپ پارٹی میںاندرونی طور پر اختلافات اس قدر بڑھ گئے ہیں بقول باپ پارٹی کے اہم ذمہ دار اور پارٹی میں ایک عہدے پر فائز میرے ساتھ ایک ساتھ نجی محفل میں اعتراف کرلیا تھا کہ جام اور بزنجو کی اختلافات آخری تک گئے ہیں۔میرے استفسار پر انہوں نے کہا کہ ذاتی وجوہات اور عدم برداشت کی وجہ سے یہ سب ہورہا ہے ۔جام صاحب یہ سب کچھ دانستہ طور پر کررہے ہیں کبھی بھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔اس وقت ملازمین طبقہ جام صاحب کی کارکردگی سے نالاں۔ملازمین نے ایک طویل دھرنا دیا لیکن انہیں 25 فیصد الائونس نہیں ملا۔ روزگار پر غیر اعلانیہ طور پر پابندی عائد کردی گئی ہے صرف ایک چیز میں جام صاحب کو دلچسپی ہے وہ ہے کورونا۔ بقول ان کے ایک سابق ایڈوائزر کے کورونا کی مد میں بڑی رقم ایمرجنسی کے طورپررکھی گئی ہے جتنا مرضی ادھر ادھر کرو، کوئی پوچھنے والا نہیں اسی لئے جام کمال اپنا کمال ایسی چیزوں پہ دکھا رہا ہے۔ موجودہ صورتحال میں پی ٹی آئی کا خاص رول نہیں ہوگا کیونکہ ان کا موقف سینٹ انتخابات کے وقت واضح ہوچکا ہے، باپ پارٹی کے منحرف ارکان اگر بھوتانی کی قیادت میں اکٹھے ہوئے تو جام صاحب کوجانے سے کوئی طاقت نہیں روسکتی۔لیکن اپوزیشن کا اس معاملے میں بڑا رول ہوگا ایسا سمجھو اپوزیشن کے بغیر تبدیلی ناممکن ہے کیونکہ اپوزیشن کے پاس واضح عددی اکثریت موجود ہے ڈھائی سالہ اقتدار میں موجودہ حکومت کی خاطر خواہ کارکردگی نہیں رہی ہے عمران خان اور جام کمال ایک سوچ کے مالک ہیں یہ یہی سمجھتے ہونگے کہ اقتدار ہمیشہ رہیگا اسی لئے ان میں ایک گھمنڈ نظرآتا ہے ، بھوتانیسب کیلئے قابل قبول ہوگا۔
پسنی سے کلانچ جاتے ہوئے کچی اور دشوار گزار سڑکوں پر چلتے ہوئے اتنا احساس ضرور ہوتا ہے کہ یہاں کے لوگوں کا خیال سیاسی پارٹیوں کو ہر پانچ سال بعد اس وقت یاد آتی ہے جب وہ انتخابی مہم کے لئے انکے پاس ووٹ مانگنے جاتے ہیں، ایسا بھی پہلی بار 2018 کے الیکشن میں ہوا تھا جب الیکشن لڑنے والے امیدوار خود ووٹ مانگنے کلانچ کے دور افتادہ گاؤں میں گئے تھے،کیونکہ اس سے پہلے کوئی انتخابی امیدوار کلانچ ووٹ مانگنے نہیں جاتا تھا۔کلانچ میں دو درجن سے زیادہ گاؤں اور دیہات آباد ہیں، کلانچ کے مختلف دیہاتوں کی آدھی آبادی تو پہلے ہی سے کلانچ کو الوادع کہہ کر پسنی اور گوادر میں مستقل طور پر منتقل ہوچکی ہے۔ اس وقت کلانچ میں جو لوگ رہائش پذیر ہیں، وہ یا تو غربت کے آگے بے بس ہوکر کسی قریبی شہر منتقل نہیں ہوسکتے اور کچھ کو کلانچ کے سرزمین کی مٹی وہاں رہنے پر مجبور کررہی ہے۔کیونکہ وہ اب بھی پرامید ہیں کہ کلانچ میں لہلاتی فصلوں پر ایک بار پھر بلبل سریلے گیت گائیں گے، اور فاختائوں کی کوکو کی آواز پھر گونجے گی۔
ایف ایس سی کا زمانہ تھا… انتہائی دباؤ کی فضا… نمبروں کا پریشر، ڈاکٹر جو بننا تھا تب پتہ ہی نہیں تھا کہ زندگی میں میڈیکل اور انجینئر کے علاوہ بھی کچھ ہوتا ہے… انٹری ٹیسٹ دیا……ناکام رہی… وہ ناکامی اتنی بری تھی کہ … تب کوئی بھی دیکھتا تھا تو یوں لگتا تھا جیسے کہہ رہا ہو یہ تو ہے ہی فیل… کچھ نہیں کر سکتی زندگی میں… ڈپریشن کے لیے یہ کافی تھا…. ہر کسی سے الجھنا اب معمول تھا… اماں ابا تو دشمن لگتے تھے کہ یہی ہیں جن کی وجہ سے یہ سب ہوا ہے