بلوچستان میں نظریاتی سیاست بمقابلہ ہائبرڈ اور پیراشوٹرز سیاست دان

| وقتِ اشاعت :  


سیاست کو بلاشبہ عبادت کا درجہ دیا جاتا ہے اور عوام و انسانیت کی خدمت عبادت سے ہرگز کم نہیں اسی وجہ سے سیاسی جماعتیں اپنی سوچ اور نظریات پر کاربند رہ کرعوام اور علاقے کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کیلئے خدمت کرکے عبادت کی طرح اپنے مقاصد طے کرتے ہیں۔ نظریات ایک اصول اور عمل ہی کی مانند ہوتی ہیں جہاں سوچ اور خیالات کے باہمی ملاپ سے ہی نظریات چٹان بن کر سیاسی قائدین اور جماعتوں کو کامیابی وکامرانی سے ممتاز کرتی رہتی ہیں۔ پاکستان کی آزادی بھی ایک نظریہ اور انسانیت کی خدمت اور اسلامی و فلاحی مملکت کے قیام کی بنیاد تھی۔



چمن ٹو کراچی ڈبل روڈ اوروزیراعلیٰ صاحب کا خط

| وقتِ اشاعت :  


چمن ٹوکراچی روڈ اور دیگر بلوچستان کی شاہراہوں کی حالت زار اور انھیں ڈبل کرنا بھی بلوچستان نیشنل پارٹی کے ساتھ دستخط ہونے والی چھ نکات کا حصہ ہے۔ اس معاہدہ کے تحت کراچی ٹوچمن روڈ پائپ لائن میں شامل ہوا اور گزشتہ فیڈرل پی ایس ڈی پی میں اس کے لیے فنڈز فراہم نہیں کیے گئے اور منصوبہ پائپ لائین ہی میں رکھا گیا اور اسکی فیزبلٹی رپورٹ تک کے لیئے فنڈز کی فراہمی کی یقین دہانی کروائی گئی اور گزشتہ سال فزیبلٹی رپورٹ کے لیئے بڈز بھی طلب کی گئیں۔ یہ بھی واضح ہو کہ وزیراعلیٰ صاحب نے بھی گزشتہ سال فیڈرل پی ایس ڈی پی کے وقت بھی اس پر احتجاج کیا تھا کہ اس منصوبے کو فیڈرل پی ایس ڈی پی میں شامل نہ کرنا ناانصافی ہے اور انھیں بھی گزشتہ سال یقین دہانی کروائی گئی تھی۔ بی این پی کے چھ نکات پر عمل درآمد نہ ہونے کے سبب بی این پی نے حکومت سے رائیں الگ کرلیں لیکن اس معاہدہ کے تحت جو منصوبے پائپ لائین میں رہ گئے تھے۔



صوبائی خودمختیاری اور سندھ کے اداروں کے سر پر لٹکتی تلوار

| وقتِ اشاعت :  


اگر موجودہ حکومت کے سیاسی ثمرات کا جائزہ لیا جائے تو موجودہ سرکار پاکستان کے تاریخ کی واحد سرکار ہے، جو کسی بھی صورت وفاقی تو دور کی بات، “حکومت” ہی نہیں لگ رہی۔ وفاقی سرکار اب ایسا چوہدری، یا وڈیرا بن گئی ہے جو کسی بھی کسان کی فصل اترنے پر آکر کھڑا ہو جاتا ہے اور سارا غلہ پانی اپنے گھر اٹھا کر لے جاتا ہے۔ یوں تو سندھ کی تمام ہسپتالیں بہت ہی اہمیت کی حامل ہیں، لیکن کراچی کا سول ہسپتال، جناح ہسپتال، نیشنل انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ، سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ (ایس آئی یو ٹی) اور سندھ انسٹیٹیوٹ آف کارڈیو وسکیولر ڈزیز (این آئی سی وی ڈی) انتہائی اہم ہسپتالوں میں شمار ہوتے ہیں، اور ان کے چرچے زبان زد عام ہیں، جب کسی بھی مریض کو کہیں بھی بچنے کی تسلی نہیں رہتی تب اس کو ان ہسپتالوں میں منتقل کیا جاتا ہے، اور یہ پیپلز پارٹی کی کاوشوں اور مخیر حضرات کی صدقِ دل سے دی جانے والی امداد کا نتیجہ ہے کہ ان ہسپتالوں سے شاید ہی کوئی مایوس لوٹتا ہے، وگرنہ تو لوگ تندرست و توانا ہو کر یہاں سے اپنے گھر جاتے ہیں۔



آرٹس کونسل میں آرٹ کی موت

| وقتِ اشاعت :  


آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری سندھ لٹریچر فیسٹیول میں بعنوان‘‘بلوچ تاریخ اور سیاست’’کے انعقاد پر پابندی عائد کردی گئی۔ سیشن کو عین موقع پر جبراً منسوخ کروادیاگیا۔ شایدوہ علم و ادب سے خوف کھاتے ہیں اور مکالمے و دلیل سے ڈر تے ہیں۔ حق اور سچ کی آواز کو جتنا دبانے کی کوشش کی جائے یہ اتنا ہی گونج اٹھتی ہے۔ اور وہ آواز آرٹس کونسل سے چند کلومیٹر فاصلے پر قائم باغ جناح میں گونجی۔ جہاں شرکاء نے مقررین کے ساتھ سیشن کا انعقاد کیا۔ شرکاء کا کہنا تھا کہ بلوچ سیشن کہیں بھی ہوسکتا ہے بلوچ کے لئے سیشن رکھنے کے لئے پلیٹ فارم کی ضرورت نہیں ہے۔ 70 سالوں سے بلوچ سڑکوں پر دھرنا اور احتجاج کررہے ہیں اب بلوچ عادی ہوچکے ہیں۔ بغیر آڈیٹوریم کے بلوچ سیشن کا انعقاد کرواسکتے ہیں۔ اس کے لئے آڈیٹوریم کی ضرورت نہیں ہے۔



*سی پیک اورگوادر*

| وقتِ اشاعت :  


گزشتہ کچھ عرصے سے چائنا پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک ) کے حوالے سے اس قدر اعلانات، دعوے، بیانات، تجزیے اور اقدامات سامنے آ چکے ہیں کہ سی پیک کے حوالے سے چائنا نہ سہی پاکستان کے ہر صوبے کے لوگوں کے دل و دماغ امیدوں ، توقعات اور خدشات سے لبریز ہوچْکے ہیں۔ اور اگر یہ بات گوادر میں بیٹھ کر کی جائے تو یہاں امید اور خدشات کئی گنّازیادہ بڑھ چکے ہیںکیونکہ گوادر ہی وہ مقام ہے جو اقتصادی راہداری کا ایک طرف سے نقطہ آغاز اور دوسری طرف سے نقطہ اختتام ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ چراغ تلے اندھیرا ہے۔ گوادر جس کے تینوں اطراف نیلگوں سمندرہے لیکن گوادر والے آج بھی پانی کے ایک ایک بوند کو ترس رہے ہیں۔ گوادر کے شہریوں کو 20/25 دن کے بعد ایک گھنٹہ آدھی انچ کے پائپ سے مضرِ صحت پانی دیا جاتاہے۔ گوادر کی قدیم آبادی کھنڈرات کا منظر پیش کرتی ہے ۔



لسبیلہ میں جعلی ہاؤسنگ اسکیموں کی بھرمار

| وقتِ اشاعت :  


ضلع لسبیلہ میں جعلی رہائشی اسکیموں کی بھرمارہوگئی ہے۔ مقامی افراد کی جدی پشتی اراضی پر قبضہ کرنے کاسلسلہ جاری ہے۔ بلڈر مافیا کو متعلقہ افسران کی سرپرستی حاصل ہے، ان کے مسلح افراد دن دھاڑے لوگوں کی اراضی پر گن پوائنٹ پر قبضہ کررہے ہیں۔ پیرکس روڈ، بھوانی، حب بائے پاس،ساکران روڈ سمیت دیگر علاقوں میں رہائشی اسکیموں نے ایک سونامی کی صورت اختیار کرلی ہے۔ جگہ جگہ سائن بورڈز آویزہ کردیئے گئے ہیں۔ لسبیلہ کے مقامی قبائل کی اراضی محفوظ نہیں ہیںجن میں سیاہ پاد، موٹک، گجر، منگیانی سمیت دیگرقبائل شامل ہیں۔



غضب کیا تیرے وعدے پر اعتبار کیا

| وقتِ اشاعت :  


تین ماہ قبل بلوچستان کے وزیر اعلی جام کمال خان نصیرآباد کے دورے پر آئے اور اس نے نصیرآباد کے صدر مقام ڈیرہ مراد جمالی اور غفور آباد میں عوامی اجتماعات اور مختلف ترقیاتی منصوبوں کا معائنہ اور افتتاح کیا ۔ اس دوران صاحب سنت اور باعمل وزیر اعلیٰ نے بہت سے لولی پاپ یعنی ترقی کے ثمرات سے عوام کو بہرہ مند ہونے کی نوید سنائی۔ ڈیرہ مراد جمالی بلوچستان کا واحد اور بدقسمت ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ہے جو صوبے کا چھٹا بڑاشہر ہے لیکن یہ شہر سن ستر سے لے کر اب تک الاٹ منٹ اور مالکانہ حقوق سے محروم چلا آ رہا ہے ہر دور میں عوام کو بہلا پھسلا کر الاٹمنٹ کی نوید اور خوشخبری سنا کر ووٹ حاصل کیا جاتا ہے۔



وزیراعلیٰ کی کاوشوںسے نصیرآبادمیں کھیلوں کا فروغ

| وقتِ اشاعت :  


صوبے بلو چستان کے نصیر آباد ڈویژن کی مٹی بڑی ذرخیز ہے یہاں کے جفا کش کسانوں کی اگر بات کی جائے تو اپنی انتھک محنت کی بدولت صوبے کی عوام کے لیے خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑرہے اوراگر کھیلوں کے مقابلوں کی بات کی جائے تویہاں کے نوجوانوں نے ہر میدان میں اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے ہیں اوریہ کامیابیوں کا سلسلہ چاہے سیاسی ہو تعلیمی ہویا کوئی اور ہر محاذ ہواپنی کامیابیوں کا لواہا منوایا ہے سپورٹس سے وابستہ نوجوانوں نے مختلف کھیلوں کے مقابلوں میں حصہ لے کرصوبے میں ڈویژن بھر کا نام روشن کیا ہے۔



قصہ گوسیاسی دانشور

| وقتِ اشاعت :  


سورج ابھی ابھی غروب ہوچکا ہے،رات کی تاریکی دھیرے دھیرے سرمئی روشنی کو لپیٹ رہی ہے ،زرغون روڈ کی اسٹریٹ لائٹس کی مدہم روشنی کو خراٹے بھرتی ہوئی ایک جاپانی ویگو گاڑی چیرتی ہوئی ایک سرکاری بنگلے کے اندر داخل ہوتی ہے ،گاڑی سے درمیانہ قد اور درمیانی عمر کا گورا چٹا گھنگریالے بالوں والا ایک شخص تیزی سے نکل کر گھر کے اندورنی دروازے سے ہوتا ہوا ایک کمرے میں داخل ہوتا ہے ،یہ ایک سرکاری گھر ہے جس میں بلوچستان کا ایک سابق وزیر اعلیٰ عارضی رہائش پذیر ہے ،میزبان کو پہلے سے ہی مہمان کی آمد کا علم ہے ایسا لگ رہا ہے کہ میزبان اپنے مہمان کا منتظر ہے۔



سانحہ جھٹ پٹ مارکیٹ اور انصاف کی تلاش

| وقتِ اشاعت :  


لیاری حکمرانوں کی عوام دشمن پالیسیوں کی بدولت آج شدید بے چینی اور کرب میں مبتلاہے۔ لیاری میں موجود جرائم پیشہ عناصر کوہمیشہ کسی نا کسی طاقتور اشرافیہ نے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا۔ انگریز دور سے ساٹھ کی دہائی تک تحریک آزادی کے نام نہاد سپوت اور معروف مسلم لیگی گھرانہ ہارون خاندان نے لیاری کے مقامی وڈیروں سے مل کر جرائم پیشہ عناصرکو شہرمیں اپنی سیاسی برتری ، زمینوں پر قبضوں اور مخالفین کوسبق سکھانے کے لیے استعمال کیا۔