|

وقتِ اشاعت :   December 11 – 2013

imagesاسلام آباد(آن لائن)سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کی بازیابی بارے مقدمہ نمٹاتے ہوئے قرار دیا ہے کہ فوجی حکام 35 افراد کو حراستی مرکز مالاکنڈ سے جبری طورپر اٹھا کر لے گئے ۔وزیر اعظم ،گورنر اور وزرائے اعلی لاپتہ افراد کی 7 روز میں بازیابی کو یقینی بنائیں ۔عدالت نے اپنے حکم نامے میں کہا ہے کہ ملک میں جبری طور پر لاپتہ کرنے کا کوئی قانون موجود نہیں۔وزیر اعظم یقینی بنائیں کہ آئندہ کوئی جبری گمشدگی نہ ہو۔سات افراد کو پیش کیا گیا باقی کے کوائف بھی آرمی کے علم میں ہیں۔ سات روز میں تمام لاپتہ افراد کو سپریم کورٹ میں پیش کیا جائے اور اس کی رپورٹ رجسٹرار سپریم کورٹ کو ارسال کی جائے ۔جبری گمشدی کو روکنے کے لئے حکومت جلد قانون سازی کرے۔یہ حکم منگل کے روز چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے جاری کیا ہے ۔حکم میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومت لاپتہ افراد کی جبری گمشدگیوں میں مبینہ طور پر ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرے ۔اس سے قبل جب سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل منیر اے ملک ،قائم مقام سیکرٹری دفاع عارف نذیر سمیت دیگرحکام پیش ہوئے مگر وزیر دفاع خواجہ آصف پیش نہیں ہوئے ۔لاپتہ افراد سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ رواں قومی اسمبلی اجلاس میں قانون سازی کر لی جائے گی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لاپتہ افراد کہاں ہیں؟ قائم مقام سیکرٹری دفاع نے کہا کہ سخت ترین سکیورٹی مسائل کی وجہ سے پیش نہیں کر سکے۔اس پر چیف نے کہا کہ زمین پھٹے یا آسمان لاپتہ افراد پیش کئے جائیں ۔فوج کے لوگ ہیلی کاپٹر کے ذریعے سیاچن سے آ جاتے ہیں اس کا مطلب واضح ہے وزیر اعظم سمیت پوری حکومت کو لاپتہ افراد کا علم ہے۔لگتا ہے آپ کی کوئی بات نہیں مانتا ۔عدالتی حکم آپ کے حکم جیسا نہیں ہوگا۔ ہلاک ہونے والے لواحقین ایک گھنٹے میں یہاں آجاتے ہیں ۔عدالتی حکم پاور فل ہوگا۔ آپ نے انہیں تھانے میں بند کررکھا ہے ۔آپ جان بوجھ کر ایک چیز کو سنسنی خیز نہ بنائیں۔آپ انہیں ایک گھنٹے میں لاسکتے ہیں ۔عدالت نے وزیر دفاع کو فوری طور پر طلب کر لیا۔انہوں عدالت سے وعدہ کیا تھا کہ 10 دسمبر کو معاملہ حل ہو جائیگا ۔ابھی صرف721 مقدمات سامنے آئے ہیں باقی کتنے افراد لاپتہ ہیں ۔ان کا علم نہیں ۔نام بتائیں آپ کو ان افراد کے بارے میں کون بتلا رہا ہے۔ شروع ہی سے آپ کی ضد تھی کہ بندے پیش نہیں کرنے۔ہم نے کہا تھا کہ لاپتہ افراد لائیں ہم حکم جاری کریں گے اور ایگزیکٹو اتھارٹی کو اس پر عمل کرنا ہوگا۔ سپریم کورٹ نے سیکرٹری دفاع کی وضاحت سننے سے انکار کر دیا۔یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ قائم مقام سیکرٹری دفاع عارف نذیر کو براہ راست کوئی علم نہیں کہ یہ معاملات کیا ہیں۔قائم مقام سیکرٹری دفاع ہونے کیو جہ سے انہیں متعلقہ حکام سے ہدایات وصول کرنا پڑتی ہیں جو کہ مسلح افواج اور دیگر اتھارٹی وزارت دفاع سیکرٹریٹ کو رپورٹ دیتے ہیں ۔یہ بھی علم میں آیا ہے ۔ان افسران بارے ان کو علم ہی نہیں ہے۔6 دسمبر2013 کو حکم دیا تھا اس پر اس کی روح کے مطابق عمل نہیں کیا گیا ۔مختلف وجوہات بتائی گئیں جو قابل قبول نہیں ہیں ۔ہم نے نوٹ کیا ہے کہ رپورٹس کی بنیاد پر 35 افراد کو آرمی کے لوگوں نے اٹھایا ہے جو ثابت ہو چکا ہے ۔ان حقائق کی روشنی میں جو کہ ایک خط آئی جی جیل خانہ جات کو لکھا گیا تھا اس کو پہلے ہی آرڈر کا حصہ بنایا گیا تھا اب بھی بتایا جارہا ہے 11 جنوری2012 ء کو یہ خط لکھا گیا تھا اور یہ خط پشاور ہائی کورٹ کے روبرو پیش کیا گیا تھا جس میں ان تمام افراد کے نام شامل تھے جس میں یاسین شاہ ولد قابل شاہ کا نام بھی تھا۔ محبت شاہ اپنے بھائی کی رہائی کے لئے ایک کنارے سے دوسرے کنارے بھاگ رہے ہیں۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو بھی 25 اگست2013 ء کو ہدایات دی گئی تھیں کہ محمد یاسین شاہ ولد قابل شاہ ایک ان ڈیکلیئر حراستی فرد ہیں ۔اس حوالے سے انہوں نے متعلقہ حکام سے ہدایات حاصل کرنی ہیں۔وہ حراستی مرکز میں ہے اور اس کے ساتھ قواعد وضوابط کے مطابق نمٹا جارہا ہے بجائے اس کے نام کو سامنے لایا جاتا جس میں آرمی کے لوگ ملوث تھے ۔عطاء اللہ سپرٹنڈنٹ حراستی مرکز نے دیئے تھے ان کو پیش نہیں کیا گیا ۔عدالت جوڈیشل پاور استعمال کررہی ہے ۔یہ تاثر غلط لیا گیا کہ کوئی سخت حکم جاری نہیں ہوگا تاہم اس کیس میں پیش رفت پانچ دسمبر2013 ہائی لائٹ ہوئی کہ یہ معاملہ تو بہت اہم ہے اور سماعت کے دوران وزیر دفاع خواجہ آصف کو وزیر اعظم نواز شریف کی ٹیلی فون کال موصول ہوئی اور کال اٹنڈ کرنے کے بعد خواجہ آصف دوبارہ پیش ہوئے ۔ان کے ساتھ اٹارنی جنرل بھی تھے ۔انہوں نے کیس کی سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی اور سماعت 6 دسمبر کو ملتوی کی گئی کہ ایک اچھی خبر سنائی جائے گی ۔ چیف ایگزیکٹو کے طور پر وزیر اعظم کے اس معاملے میں ملوث ہونا ایک عام پیش رفت نہیں تھی اگرچہ وہ ایگزیکٹو ہیڈ ہونے اور آرٹیکل 90 کے تحت اختیارات استعمال کرنے والے وزیر اعظم اس معاملے کو حل کرنے کا مکمل اختیار رکھتے ہیں ۔انسانی حقوق کے مقدمات اور خاص طور پر لاپتہ افراد کے معاملات کو حل کرنے میں اختیار رکھتے ہیں ۔یہ صرف بلوچستان ہی نہیں پورے پاکستان میں ان کا اختیار ہے۔ عدالت کو یقین تھا کہ اعلی انتظامی شخصیت اور وزیر اعظم کے ملوث ہونے کے بعد اس معاملے کو حل کرنے میں نہ صرف پیش رفت ہوگی بلکہ جو کیس زیر سماعت ہے اس کو بھی حل کریگی ۔یہ بھی محسوس کیا گیا کہ تین دسمبر 2013 کو اٹارنی جنرل منیر اے ملک خواجہ آصف کے ساتھ پیش ہوئے تھے نے مختصر وقت دینے کی استدعا کی تھی ۔کیونکہ وزارت دفاع حقیقت میں پیش رفت دکھانے کی متمنی تھی یہ درخواست بھی مانگی اور اس امید کا اظہار کیا گیا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ حل ہو جائیگا اور عطاء للہ کی جانب سے لکھے گئے خط کے مطابق ہی مسئلہ حل ہوگا۔ اگرچہ اس خط کو بطور ریفرنس پہلے بھی استعمال کیا جا چکا ہے ۔یہ مناسب ہوگا کہ اب بھی اس خط کو دوبارہ سے شامل کیا جائے۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری دفاع سے کہا ہے کہ آپ کے خلاف بھی آرڈر دینا ہوگا کیونکہ آپ بھی نام نہیں بتلا رہے ہیں۔آپ کو خبردار کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔آپ اگر ہمیں طفل تسلیوں پر نہ رکھتے تو معاملہ اب تک حل ہو چکا ہوتا۔ اب مشکل یہ پیدا ہوگئی ہے کہ آپ نے سب کو ملوث کر دیا ہے۔ وزیر اعظم کو پتہ چل جانے کے بعد یہ معاملہ اور بھی اہم ہوگیا ہے۔ ان تمام لاپتہ افراد کو ان ڈکلیئر حراستی افراد قرار دے چکے ہیں۔ نائب صوبدیدار امان اللہ بیگ35 افراد لیکر گئے اس وقت سے ان افراد کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چل سکا ہے اور نہ ہی اس حوالے سے جیل اتھارٹیز کو کچھ بتایا گیا ہے ۔ یہ نوٹ کرنا بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ وزارت دفاع کی جانب سے ان افراد کے حوالے سے مکمل طور پر انکار کیا گیا اور کہا گیا کہ یاسین شاہ وغیرہ کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے