|

وقتِ اشاعت :   January 21 – 2016

جینیوا: اقوام متحدہ کے ادارے برائے انسانی حقوق میں بلوچ قومی نمائندہ مہران بلوچ نے شہید نواب اکبربگٹی کیس پر عدالتی فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کورٹ کا فیصلہ غیر متوقع نہیں ہے. نواب بگٹی کیس نے دنیا کے سامنے عدالتوں کی بلوچوں سے انصاف کی قلعی کھول دی کہ ریاست کا بلوچوں سے انصاف کا معیار کیسا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نواب بگٹی کیس میں عدالتوں کی انصاف اور اختیارات کا اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بلوچوں کا قاتل مشرف ایک بار بھی عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوا اورمشرف کئی مواقعوں پر یہ بات واضح کرچکے ہیں کہ انہوں نے جو کیا نہ صرف اچھا کیا بلکہ انہیں اپنے اس عمل پر فخر ہے اور یہ کہ اگر انہیں دوبارہ موقع ملے تو وہ ایسا پھر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں. جب قاتل خود نہ صرف اعتراف قتل کررہا ہیبلکہ وہ اس عمل کو دوبارہ انجام دینے کا بھی عزم کرتے ہیں لیکن کرائے کے ججز کو ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا۔ مہران بلوچ نے کہا کہ خفیہ ایجنسیوں نے کئی سالوں سے ہزاروں بلوچوں کو جبری لاپتہ کیا ہوا ہے، بلوچوں کو اغوا کرتے ہوئے اہلکاروں کے خلاف ناقابل تردید شواہد موجود ہونے کے باوجود ایک کو آج تک سزا نہیں ہوئی جبکہ مختلف کمیشن بنا کر انہیں عدالتی و قانونی تحفظ فراہم کی گئیں تاکہ وہ پنجاب کے مفادات کے لیے بلوچ نسل کشی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بلا خوف جاری رکھ سکیں سچ تو یہ ہے کہ عدالتیں اور ججز بلوچوں سے انصاف کے لئے نہیں بلکہ بلوچستان میں جاری کاروائیوں، ماوارئے عدالت قتل، نسل کشی اور جبری گمشدگیوں میں اہلکاروں کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کے لئے بنائیں گئیں ہیں. مہران بلوچ نے کہا نواب اکبر بگٹی ایک قومی رہنما تھے جنہوں نے اپنے وطن کی آذادی اور اپنے قوم کے بہتر مستقبل کے لیے جان قربان کردی ان کی اس قربانی کو بلوچ قوم کبھی بھی فراموش نہیں کرسکتی. بلوچ فرزندوں کے قاتل مشرف اپنے ہی عدالت اور کرائے کے ججوں سے اپنے حق میں فیصلہ سنواکر خود کو تو دھوکہ دے سکتے ہیں لیکن بلوچ قوم کو دھوکہ نہیں دے سکتا. مشرف اور ان کے ہمنواوں کو بلوچ قومی عدالت اور بین الاقوامی عدالت انصاف کے سامنے جنگی جرائم اور بلوچ نسل کشی پر جوابدہ ہونا پڑے گا۔