|

وقتِ اشاعت :   August 8 – 2017

گزشتہ سال آج ہی کے دن وکلاء برادری کو خودکش حملے کا نشانہ بنایا گیا جس میں مجموعی طورپر ستر سے زیادہ لوگ شہید اور کہیں زیادہ زخمی ہوئے۔ یہ خودکش حملہ ایک منصوبہ کے تحت سول اسپتال کے اندر کیا گیا۔

پہلے نامور وکیل بلال انور کاسی کو گھر سے باہر نکلنے کے بعد گولیوں کا نشانہ بنایا گیا , موٹرسائیکل سواروں نے کاسی مرحوم کی گاڑی پر اچانک حملہ کردیا اور ان کو سینے اور سر پر دس گولیاں ماری گئیں ۔

حملہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ حملہ آور موقع پر ہی ان کو ہلاک کرنا چاہتے تھے اس لیے ان پر قریب سے گولیوں کی بارش کی گئی ۔ اس قسم کے دلیرانہ حملے کی مثال شاید ہی ملے ۔

حملہ کے بعد ان کی لاش سول ہسپتال پوسٹ مارٹم کے لئے لائی گئی جب پوسٹ پارٹم ہورہی تھی تو سینکڑوں کی تعداد میں ان کے مداح جن میں زیادہ سینئر وکلاء شامل تھے ‘ جمع ہونا شروع ہوئے ۔ جب وہ سب لاش وصول کرکے گھر واپس لے جارہے تھے اسی وقت خودکش حملہ کیا گیا جس سے بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں ۔ زیادہ تر اموات طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے ہوئیں۔

یہ بھی منصوبے کا حصہ معلوم ہوتا تھا کہ ڈاکٹروں کو خوفزدہ کیا گیا اور اکثر ڈاکٹر ڈیوٹی چھوڑ کر محفوظ مقامات کی طرف نکل گئے کیونکہ ان کو ایک مزید حملے کا خوف تھا ۔ اسی طرح شدید زخمی افراد کو گھنٹوں طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے ہلاکتیں بڑھ گئیں ۔

اس پرطرہ یہ کہ وی آئی پی حضرات اسپتال پہنچے اور انہوں نے قریب المرگ مریضوں کے ساتھ زیادتی کی کیونکہ ان کے دورے کے دوران سیکورٹی مزید سخت کردی گئی کسی کو آنے جانے کی اجازت نہیں تھی یعنی یہ بات یقینی بنا دی گئی کہ کوئی شدید زخمی زندہ نہ بچے۔

ناگہانی واقعات کے بعد وی آئی پی حضرات فوری دورے نہ کریں کیونکہ اس سے فوری طبی امداد میں خلل پڑتا ہے اور بعض لوگ ان کی چاپلوسی میں لگ جاتے ہیں ، راستوں کو بند کرتے ہیں لوگوں کو اذیت سے دوچار کرتے ہیں۔

اس واقعے کے دوران بھی یہی ہوا ، زیادہ اموات کے ذمہ دار وی آئی پی حضرات تھے جنہوں نے سول ہسپتال کا رخ کیا ۔

اس پر یہ کہ بعض مریضوں کو سخت ترین سیکورٹی میں فوجی ہسپتال منتقل کردیا گیا جہاں بعض مریض اس لیے انتقال کر گئے کہ ان کے رشتہ دار، دوست احباب ان کو خون کے عطیات نہ دے سکے ۔

بہر حال یہ بلوچستان کی تاریخ کا انتہائی دلخراش واقعہ تھا جس میں بلوچستان کے نامور وکلاء کونشانہ بنایا گیا جن کا قصور صرف یہ تھا کہ انہوں نے انسانی حقوق کی رکھوالی کا ذمہ اٹھایا تھا، وہ انسان دوست لوگ تھے ،دانشور تھے جو اپنے عوام سے محبت کرتے تھے اور ان کو نشانہ بنانے کی وجہ صرف یہی معلوم ہوتی ہے ورنہ جاہل اور گوار دہشت گرد ان کو کیوں نشانہ بناتے ۔

منصوبہ یہ تھا کہ کاسی کی ہلاکت کے بعد جب لوگ کافی تعدا د میں جمع ہوں توان پرخودکش حملہ کیاجائے ۔

گزشتہ ایک سال سے نہ صرف شہداء کے لواحقین سو گوار ہیں بلکہ پورا بلوچستان اور اس کے باشعور لوگ غم سے نڈھال ہیں ’ ان کا نعم البدل بلوچستان کو صدیوں بعد ہی شاید مل سکے اور یہ خلاء پرہو سکے۔

افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس انسانی قتل عام کی تحقیقات بھی مناسب اندازمیں نہیں ہوئیں۔ خودکش حملہ آور نے خودکشی کی اور اس کے بعد معاملہ ختم ۔ حکومت اور اس کے اداروں نے نیم دلی کے ساتھ اس سانحہ کی تحقیقات کیں ۔

حکمرانوں نے زیادہ تر وقت صرف لواحقین کو تسلیاں دینے میں صرف کیا ۔ آج دن تک شہداء کے لواحقین کو تحفظات ہیں اوروہ مطالبہ کررہے ہیں کہ اس کی مناسب تحقیقات ہونی چائییں، اس کے پس پردہ عناصر کو بے نقاب کیاجائے ۔

اس کے علاوہ کوئٹہ کے پولیس کالج ‘ مستونگ میں جمعیت کے رہنماؤں پر حملہ اور شاہ نورانی پر بھی اس قسم کے حملے ہوئے ، وہاں بھی تحقیقات میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ۔

معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کی خواہش ہے کہ لوگ اور خصوصاً شہداء کے لواحقین یہ سب کچھ بھول جائیں ۔