|

وقتِ اشاعت :   September 30 – 2017

کو ئٹہ:  بینکنگ کورٹ کے جج جناب مراد علی بلوچ نے اکاؤنٹس ہولڈرز کے 2کروڑ 4لاکھ روپے سے زائد رقم کو ملی بھگت کرکے جعلی رسیدوں کے ذریعے ہتھیانے اور بینک کے والٹ سیل کو نذرآتش کرنے کے مقدمہ میں نامزد نجی بینک لورالائی کے برانچ منیجر ،آپریشن منیجر ،چیف کیشئر اور کیشئر کو مختلف دفعات کے تحت جرم ثابت ہونے پر قید اور کروڑوں روپے جرمانے کی سزا سنادی ہے،سزائے سنائے جانے کے بعد ملزمان کو حراست میں لیکر مچھ جیل بھیج دیا گیا ۔

استغاثہ کے مطابق الفلاح بینک پرائیویٹ لمیٹڈ لورالائی کے چیف کیشئر محمد قیوم نے برانچ منیجر عمر فاروق ،آپریشن منیجر امان اللہ خان ،کیشئر عبدالباقی کے ساتھ مل کر ملی بھگت سے اکاؤنٹس ہولڈر کے 2کروڑ4لاکھ روپے سے زائد کی رقم جعلی رسیدیں بنا کر ہتھیا لی بلکہ30اکتوبر 2014ء کو بینک کے والٹ سیل کو آگ بھی لگادی تاکہ خردبرد کی گئی رقم کو جل جانے کا ڈرامہ کیاجاسکے ۔

لیکن ابتدائی تحقیقات کے دوران ہی ان کی کروڑوں روپے خردبرد بے نقاب ہوگئی تھی جس پر بینک کی جانب سے مذکورہ ملازمین کے خلاف مقدمہ درج کرکے انہیں ملازمتوں سے برخاست کردیا گیا تھا گزشتہ روز بینکنگ کورٹ کے جج نے بینک کے چیف کیشئر محمد قیوم کو زیر دفعہ409کے تحت جرم ثابت ہونے پر 10سال قید اور ایک کروڑروپے جرمانے کی سزا سنادی عدم ادائیگی جرمانے کی صورت میں ملزم کو مزید 6ماہ قید بھگتنا ہوگی ۔

عدالت نے مذکورہ ملزم کو زیر دفعہ 420کے تحت جرم ثابت ہونے پر 7سال قید 50لاکھ روپے جرمانہ ،زیر دفعہ 468کے تحت 7سال قید اور 50لاکھ روپے جرمانے کی سزا بھی سنائی دونوں دفعات کے تحت عدم ادائیگی جرمانہ کی صورت میں ملزم کو 6,6ماہ قید مزید بھگتنا ہوگی ،عدالت نے چیف کیشئر محمد قیوم کو 5(2)ایکٹ اے سی ٹی 1947کے تحت جرم ثابت ہونے پر مزید 7سال قید اور 10لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی عدم ادائیگی ۔

جرمانے کی صورت میں ملزم کو مزید 6ماہ قید بھگتنا ہوگی ۔عدالت نے برانچ منیجر عمر فاروق ،آپریشن منیجر امان اللہ خان اور کیشئر عبدالباقی کو بھی زیر دفعات 409/109ppcکے تحت جرم ثابت ہونے پر 10,10سال قید اور پانچ ،پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنادی ۔

عدم ادائیگی جرمانے کی صورت میں ملزمان کو مزید چھ ،چھ ماہ قید کی سزا بھگتنا ہوگی ۔ملزمان ضمانت پر تھے تاہم گزشتہ روز سزائے سنائے جانے کے بعد انہیں گرفتار کرکے مچھ جیل بھیج دیا گیا۔بینک کی جانب سے کیس کی پیروی طلال رند ایڈووکیٹ نے کی۔