|

وقتِ اشاعت :   November 15 – 2017

اٹھارہ اگست 2009 کا سورج جیسے ہی طلوع ہوا, روزنامہ آساپ صحافت کی آبیاری کرتا ہوا غروب ہو چکا تھا۔ سورج نے دوبارہ طلوع ہونا تھا۔ پر آساپ کی کرنیں مدھم پڑ چکی تھیں. بلوچستان ایک حقیقی صحافتی ترجمان سے محروم ہونے والا تھا۔ آساپ کی بندش سے قبل اخبار کے مالک کو جان سے مارنے کی کوشش کی گئی۔ جان تو بچ گئی پر آساپ کو نہ بچا سکے ۔ یوں یہ اخبار صرف سترہ سال جی کر اٹھارہ اگست 2009 کو خالق حقیقی سے جا ملا۔۔ (انا للہ وان الیہ راجعون)۔ جان محمد دشتی لندن کو پیارے ہو گئے۔ آساپ کی جگہ ہسپتال نے لے لی۔ آساپ سے وابسطہ سو سے زائد ورکر بے روزگار ہو گئے۔

آساپ کی بندش نے گویا بلوچستان کی صحافت میں بچی کھچی توانائی بھی ختم کر ڈالی۔ نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت نے جہاں سانحے کو جنم دیا تھا وہیں اس پر کتابیں لکھی گئیں۔ کتاب ’’نواب بگٹی کو قتل کیوں کیا گیا‘‘منظر عام پر آ گئی ۔مصنف کوئی اور نہیں تھے روزنامہ انتخاب کے چیف ایڈیٹر انور ساجدی تھے۔ کتاب چھپی خوب بکی۔ روزنامہ انتخاب کے اداریے کے ساتھ ساتھ ان کے کالم ہر دوسرے روز شائع ہوا کرتے تھے۔ نہ جانے ایک خط کہاں سے نازل ہوا کہ انہیں بالاچ کا خیال آیا۔کالم کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ روزنامہ انتخاب کی ایڈیٹر نرگس بلوچ جس کے کالم بڑے پیمانے پر پڑھے جاتے تھے انہوں نے انور ساجدی کے نقش قدم پر چلنا پسند کیا۔ قلم کشائی سے کنارہ کش ہو کر صرف اخبار کی دیکھ بھال تک محدود ہو گئیں۔

روزنامہ آساپ کے علاوہ روزنامہ انتخاب، آزادی اور بلوچستان ایکسپریس یہ وہ تین اخبارات تھے جنہیں بلوچوں کی نمائندہ اخبار اور آواز سمجھا جاتا ہے۔ روزنامہ توار اس کے علاوہ تھا۔ یہ اخبار سرکار کی نظر میں ایک غیر رجسٹرڈ اخبار ہونے کے ساتھ ساتھ علیحدگی پسند جماعتوں کا نمائندہ اخبار سمجھا جاتا تھا, زیر عتاب آ گیا۔ توار سے وابسطہ جاوید نصیر رند اور حاجی رزاق قتل کر دیے گئے۔ اخبار کا پرنٹ ایڈیشن بند ہو گیا۔ اب اس کا صرف آن لائن ایڈیشن ہی چھپتا ہے۔

بلوچستان میں ہونے چلنے والی شورش کو کوریج نہ ملنے پر مزاحمت کاروں کی جانب سے اخبارات کا بائیکاٹ اور ان کی سرکولیشن پر ایک قسم کی پابندی عائد کر دی ۔ اخبار مالکان، نمائندگان، ڈسٹری بیوٹرز اور ہاکرز کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں۔ دھمکی کے ساتھ ساتھ اخبار فروشوں کے خلاف کاروائیاں کی گئیں۔ حب پریس کلب پر بم حملہ کیا گیا، تربت مین بازار میں اخبارات کی دوکان پر بم سے حملہ کیا گیا، حملے میں کئی افراد زخمی ہو گئے۔ اخبارات ترسیل کرنے والے ویکلز کو گولیوں کا نشانہ بنا کر ان کے ٹائر برسٹ کیے گئے۔ خوف کی فضا قائم ہوئی۔ عدم تحفظ کی صورت حال پیدا ہو گئی۔ صحافی برادری نے پریس کلبز کی تالہ بندی کرکے صحافیانہ سرگرمیاں معطل کر دیں۔

پیدا شدہ صورت حال میں سب سے زیادہ نقصان ان اخبارات کو ہوا جن کا گزر بسر اخبارات کی سرکولیشن اور ڈی جی پی آر سے ملنے والی اشتہارات پر ہوتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ نقصان ان اخبارات کو ہوا جن کی نمائندگی بلوچ ایڈیٹرز کر رہے تھے۔ روزنامہ آزادی کے یکم نومبر کو شائع ہونے والے ایڈیٹوریل کا عنوان تھا ’’مقامی اخبارات کا معاشی قتل‘‘. ایڈیٹر نے لکھا ہے کہ مئی کے وسط سے لے کر اکتوبر تک اشتہارات میں80 فیصد کٹوتی کی گئی۔ اس کے بعد اشتہارات مکمل طور پر بند کیے گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیکورٹی کے نام پر ان کے دفتر کا چوبیس گھنٹے کا محاصرہ کیا گیا ہے۔ جس کا مقصد انہیں ان کے کام سے ہٹانا ہے۔اداریے میں وزیراعلیٰ کو پبلسٹی کم ملنے کی شکایت اور بیوروکریسی کی عمل دخل کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اداریے میں مزید لکھا ہے کہ اگر ان کی شکایت کا ازالہ نہیں کیا گیا تو غیر معینہ مدت تک اخبارات کی اشاعت بند کریں گے۔ جس میں روزنامہ آزادی کے ساتھ ساتھ انگریزی میں شائع ہونے والا روزنامہ بلوچستان ایکسپریس بھی شامل ہے۔

یہ وہی مدعا تھا جو سریاب روڑ سے شائع ہونے والا اخبار آساپ نے بندش سے چند روز قبل بیان کیا تھا۔ ایڈیٹر روزنامہ آزادی صدیق بلوچ 13نومبر کو شائع ہونے والے کالم میں لکھتے ہیں کہ اشتہارات کی بندش میں وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کے دو آفیسران کا ہاتھ ہے۔ ان آفیسران کو جب بھی موقع ملا انہوں نے اخبارات کی پیٹھ پر چھرا گھونپنے کی کوشش کی۔ وہ مزید لکھتے ہیں ادارے سے 100سے زائد ملازم وابسطہ ہیں جب کہ چار سو گھرانوں کا روزگار اسی ادارے سے چل رہا ہے۔ انہوں نے وزیراعلیٰ سے بھی درخواست کی ہے کہ وہ اپنا مؤقف واضح کریں اور آفیسران کے خلاف تادیبی کاروائی کریں۔

وزیراعلیٰ‌کے نام اسی طرح کا شکوہ روزنامہ انتخاب کے ایڈیٹر اخبار کے پہلے صفحے پر کر چکے ہیں۔ ’’ مقامی اخبارات کے خلاف انتقامی کاروائی, حکم کس نے دیا‘‘۔مقامی اخبارات کے خلاف کاروائی سے یہ اخبارات اپنی موت آپ مر جائیں گے۔ انہوں نے اس عمل کو غیر جمہوری اور غیر آئینی قرار دیا ہے.

روزنامہ انتخاب اور آزادی دو ایسے اخبارات ہیں جنہیں مکران بیلٹ میں زیادہ پڑھا جاتا ہے۔ اخبارات کی خبروں پر ایکشن لیا جاتا ہے۔ دونوں اخبارات بلوچ نوجوانوں کے لیے تربیتی ادارے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پر نو وارد لکھاریوں کی شکایت دونوں اخبارات خصوصا روزنامہ انتخاب سے یہ رہی ہے کہ ادارے کا ادارتی صفحہ قومی اخبارات کی طرح مقامی لکھاریوں کو جگہ فراہم نہیں کرتا اور نہ ہی ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ جو روزنامہ آساپ کیا کرتا تھا. اخبار کا ادارتی صفحہ غیر علاقائی، ملکی مضامین سے مزین کیا جاتا ہے۔ نوجوانوں کا یہ شکوہ بجا تھا۔ آج جب یہ اخبارات اپنی جنگ تنہا لڑ رہے ہیں تو کہاں گئے وہ لکھاری جن کے مضامین سے اخبار کو سیاہ کیا جاتا تھا۔ دوسری جانب سی پی این کی جانب سے بھی کوئی مؤثر لائحہ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔ جس کی بلوچستان میں سربراہی انور ساجدی خود کر رہے ہیں۔

بلوچستان میں جتنے بھی اخبارات ہیں سب کے سب مالی معاملات کو چلانے کے لیے ڈی پی آر کا سہارا لیتے ہیں۔ اشتہارات کی مد میں مختص کردہ رقم زیادہ تر ان اخبارات کے کھاتے میں چلا جاتا ہے جو وفاقی اخبار کہلاتے ہیں یا ڈمی پیپرز کے حصے میں چلاجاتا ہے ۔ جن کے بارے میں مشہور ہے کہ اشتہارات کو ہیراپھیری کرنے کے لیے انہی ڈمی اخبارات کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔ ڈمی پیپرز کی اس کھیل میں بیوروکریسی بالواسطہ یا بالاواسطہ ملوث ہے جسے کوئی ہلا نہیں سکتا ۔

حکومت کی جانب سے کالعدم تنظیموں کی خبروں اور بیانات کو شائع نہ کرنے کا جو حکم نامہ اخبارات کو ملا تھا، دیگر اخبارات کی طرح مندرجہ بالا تینوں اخبارات من و عن عمل کر چکے ہیں مگر اس کے باوجود مقامی اخبارات کو انتقامی کاروائی کا نشانہ بنانا سمجھ سے بالاتر ہے۔ روزنامہ انتخاب اور آزادی کے ایڈیٹرز نے جن مسائل کی جانب اشارہ کیا ہے انہیں حل کرنا موجودہ حکومت کا کام ہے جو اپنے آپ کو جمہوری حکومت تصور کرتی ہے۔

بشکریہ حال حوال اورشبیر رخشانی