|

وقتِ اشاعت :   March 15 – 2015

کوئٹہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ رکن صوبائی اسمبلی سرداراخترجان مینگل نے کہاہے کہ ہم دودھ اورشہدکی نہریں نکالنے کے متقاضی نہیں ہے صاحب اختیاریہاں خون کی ندیوں کاتدارک کردیں ناراض لوگوں کوبلوچوں کے خون سے لکھے گئے مذاکرات کے دعوت نامے ارسال کرنے سے کوئی بھی غیرت مندبلوچ مذاکرات کے میزپرنہیںآئے گابلوچستان میں پائی جانے والی احساس محرومی کوئی قدرتی آفت نہیں غیرسنجیدہ مفاد پرست رویے اس کی بنیادی وجہ ہیں ان خیالات کااظہارانہوں نے ٹی وی چینل سے گفتگوکرتے ہوئے کیاانہوں نے کہاکہ بلوچستان کامسئلہ اب تک اتناگھمبیرنہیں ہے ضرورت اس ا مرکی ہے کہ اس جانب توجہ دی جائے ہمیشہ سے بلوچستان کی ڈویلپمنٹ کی بلندوبانگ دعوے کئے جاتے ہیں مگراہل بلوچستان کی نبض پرکسی نے ہاتھ نہیں رکھاسابقہ ادوارمیں بلوچستان کوملنے والے فنڈزسے لوگ مستفیدنہیں ہوئے انہوں نے کہاکہ اپنے دوراقتدارکاوقت شائداس لئے پورانہیں کرسکاکہ میں عوام کی مرضی سے آیاتھااگراصل قوتوں کی مرضی سے آیاہوتاتو5سال پورے کرتاہم اب بھی کہتے ہیں کہ صرف بیلٹ باکس نہ بھراجائے بلکہ حقیقی نمائندوں کوسامنے لایاجائے جب تک خودساختہ نمائندگی کومعاونت دی جاتی رہی اس وقت تک حالات بہترنہیں ہوسکتے ہم کوئی خلائی مخلوق نہیں ہے اس زمین کے رہنے والے اوراس ملک کاحصہ ہیں اسلام آبادسے بلوچستان کی ترقی کے جوڈھول سنائی دے رہے ہیں ان میں کوئی حقیقت نہیں اسلام آبادکے حکمران،دانشور اورالیکٹرانک وپرنٹ میڈیاسریناہوٹل سے وزیراعلیٰ ہاؤس تک کوبلوچستان سمجھتے ہیں انہوں نے کہاکہ ہم بلوچستان میں دودھ اورشہد کی نہروں کے تقاضے نہیں کررہے ہم چاہتے ہیں کہ یہاں خون کی ندیاں بہانے کاسلسلہ بند کیاجائے اورجولوگ خون کی ندیاں بہاکرحالات کی بہتری کے خواہاں ہیں وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں کہاجاتاہے کہ بلوچستان کے سردارنواب تعلیم اورصحت کے فروغ میں رکاوٹ ثابت ہوتے ہیں تواب تک ایسے کسی نواب یاسردارکی نشاندہی کیوں نہیں کی گئی جب بلوچستان میں چھاؤنیاں بن سکتی ہے توسکول اورہسپتال کیوں نہیں بنائے جاتے بلوچستان میں مزاحمت کاسلسلہ بہت پراناہے اب تک یہاں5آپریشن کئے جاچکے ہیں مگرآج بھی ہم اسی لکیرکوپیٹ رہے ہیں مگرمسائل کی بنیادی وجوہات کی جانب توجہ نہیں دے رہے 5آپریشنزمیں ہم نے جوکچھ کھویااب ہمیں اس سے سیکھناہوگااحساس محرومی کاواویلاتوکیاجاتاہے مگریہ کوئی قدرتی آفت نہیں اس کے بہت سے عوامل ذمہ دارہے ہم کہتے ہیں کہ جتنی توانائیاں ماضی میںآپریشنزپرصرف کی گئی اس میں سے دوفیصدبھی یہاں کی ترقی پرصرف کی جاتی توآج حالات قدرے مختلف ہوتے انہوں نے کہاکہ کسی بھی مسئلے کاحل آپریشن یاعسکریت پسندی نہیں ہے اس سے مسائل گھمبیرہونگے دنیامیں کہی بھی طاقت سے مسائل حل نہیں ہوئے مذاکرات ہی مسائل کاواحدحل ہے مگرالمیہ یہ ہے کہ یہاں مذاکرات کرنے والے ہی بے اختیارہے انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں بیرونی مداخلت کاواویلاکرنے کی بجائے شواہد پیش کئے جائے ہمیں1960سے لیکراب تک ہمیشہ سے بیرونی ایجنٹ ہونے کے الزامات کاسامنارہاہے مگرہمیں کوئی یہ بتاسکتاہے کہ عراقی اسلحے کیس میں جولوگ ملوث پائے گئے تھے کیاانہیں بعدمیں وزارتیں نہیں ملی درحقیقت بلوچستان میں جاری مظالم پراس ملک میں انتہائی کم سیاسی وسماجی ہمدردانہ رویے موجود ہیں جنہیں ختم کرنے کیلئے ایسے الزامات لگائے جاتے ہیں انہوں نے کہاکہ باہربیٹھے لوگوں کوبلانے کیلئے بھیجے گئے دعوت نامے بلوچوں کے خون سے لکھے گئے ہیں جنہیں کوئی بھی غیرت مندبلوچ قبول نہیں کریگاسنجیدگی کامحض راگ الاپنے سے کچھ نہیں ہوگاطرزفکرمیں تبدیلی کی ضرورت ہے جواب تک نہیں ہوئی ہم نے بندوق نہیں اٹھائی بلکہ پارٹی کاجھنڈاٹھاکرسیاسی جدوجہدکررہے ہیں مگرہمارے بھی اب تک 65لوگ مارے جاچکے ہیں اگرصوبوں کے وسائل پراختیارات کامطالبہ غلط ہے توحکمران آئین سے اس شق کوہی نکال دیں بلوچستان سے نکلنے والی گیس سے اب تک صوبے کے لوگ محروم ہے توکیااس سے آئین کی خلاف ورزی نہیں کہاجاسکتاانہوں نے کہاکہ ہم پارلیمنٹ میںآنے سے قبل سپریم کورٹ گئے تھے اوراپنے 6نکات پیش کئے اگروہ قانونی اورآئینی ہے تواب تک اس پرکیوں عملدرآمدنہیں ہواہم اب بھی کہتے ہیں کہ اگران 6نکات پرعملدرآمدمیں سست روی اختیارکی گئی توحالات مزیدگھمبیرہونگے انہوں نے کہاکہ ہماراپہلامطالبہ یہی ہے کہ ہمارے وسائل پرہمیں اختیاردیاجائے ہماری جتنی ضرورت ہوگی استعمال کرینگے ہم اتنے بدنیت نہیں کہ مرکز کوکچھ نہ دے مگرشائدوہاں بیٹھے لوگوں کی اپنی نیتیں اتنی خراب ہے کہ انہیں ہم پریقین نہیں ہے اگراپنی ضروریات کے مطابق آئین میں ترامیم اورراتوں رات آرڈننس جاری ہوسکتے ہیں توہمارے وسائل پراختیارات کیلئے آئینی ترامیم کیوں نہیں لائے جاسکتے صوبوں کی تقسیم کسی بھی مسئلے کاحل نہیںیہاں 4صوبوں کواختیارات دینے میں کنجوسی برتی جارہی ہے انہوں نے کہاکہ ہم ہمیشہ سے بحیثیت اپوزیشن اپناکرداراداکرتے رہے ہیں مگریہاں اپوزیشن کی بات کواتنی ہی اہمیت حاصل ہے جتنی مرکز میں بلوچستان کوحاصل ہے اسمبلی فلورپراپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اٹھنے والی آوازکوتوجہ نہیں دی جاتی ہم بھی ایسے بزرگ اورحکمت کی تلاش میں ہے جوان رویوں کاتدارک کرے اسمبلی کی چاردیواری میں اٹھنے والی آوازبلوچستان کے ڈی جی پی آرکی مرہون منت ہوتی ہے انہوں نے کہاکہ عام آدمی ہویاکوئی سردارکارکردگی کہنے سے نہ توجھٹلائی جاسکتی ہے اورنہ اس میں اضافہ کیاجاسکتاہے کسی بھی حکومت کی کارکردگی کی بنیاد امن وامان کی صورتحال پرمنحصرہوتی ہے اورجس طرح بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال ہے توایسے میں حکومت کی کارکردگی کوکس طرح خوش آئندقراردیاجاسکتاہے کوئٹہ کے سول ہسپتال میں ڈاکٹرادویات اوردیگرسہولیات تک نہیں لوگ اپناسب کچھ بھیج کرپرائیویٹ ہسپتالوں میں زیرعلاج ہے صوبائی دارالحکومت میں سرکاری سے زائدپرائیویٹ سکولز ہیں دیگراضلاع میں سرکاری سکولوں کی اساتذہ گھروں میں بیٹھ کرتنخواہ لے رہے ہیں جبکہ پرائیویٹ سکولز بند پڑے ہیں ایسے حالات میں بہتری کے دعوؤں کوکہاں تک حقیقت پرمبنی قراردیاجاسکتاہے۔