|

وقتِ اشاعت :   March 16 – 2015

اسلام آباد: اگرچہ سویلین قیادت میں انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) فوجی قیادت کی انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کی سرپرستی میں کئی سالوں سے اپنی کارروائیاں کررہی تھی، کراچی میں کام کرنے والے مختلف عسکریت پسند گروہوں سے متعلق اعدادوشمار جمع کرنے میں کامیابی نے حالیہ کارروائیوں کو کامیاب بنانے میں مدد دی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے مختلف اداروں میں کام کرنے والے حاضر سروس اور سابق اہلکاروں کے ساتھ آن دا ریکارڈ اور آف دا ریکارڈ بات چیت میں اس حقیقت کی توثیق ہوئی کہ دونوں ایجنسیوں کے درمیان تعاون کی کمی نے جرائم پیشہ عناصر کے خلاف جاری موثر کارروائیوں کو طویل عرصے تک کمزور کیے رکھا تھا۔ لیکن انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں سول حکومت کے تسلسل کے ساتھ آئی بی کو قدم جمانے اور مستحکم ہونے کا موقع فراہم کیا تھا، اور وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو قابلِ چارہ جوئی انٹیلی جنس فراہم کررہی ہے۔ آئی بی کی کارروائیوں سے قریبی طور پر منسلک ایک سینئر اہلکار کے مطابق پیپلزپارٹی کی پچھلی حکومت کے دوران اس نے کراچی میں کام کرنے والے مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں سے منسلک بھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلرز سے متعلق اعدادوشمار اکھٹا کرنا شروع کردیا تھا۔ انہوں نے بتایا ’’اگرچہ پیپلزپارٹی کی حکومت نے ان گروہوں کے خلاف سیاسی تحفظات کی وجہ سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی، تاہم ان کی سرگرمیوں سے متعلق ہم مستند اعدادوشمار اکھٹا کررہے تھے۔‘‘ جس کے نتیجے میں ستمبر 2013ء کے دوران جب مسلم لیگ ن کی حکومت نے کراچی میں آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا، تو آئی بی نے پوری تیاری کے ساتھ جرائم پیشہ سرگرمیوں میں ملوث سیاسی پارٹیوں کے گروہوں سے متعلق تفصیلات فراہم کردیں۔ مذکورہ اہلکار کے مطابق اگر سیاسی عزم غالب رہے تو کراچی کی صورتحال کو موثر طریقے سے نمٹا جاسکتا ہے۔ ’’جہاں تک ہمارا تعلق ہے، ہم نے اپنے اختیار کے تحت خاصی قابلِ چارہ جوئی انٹیلی جنس دی ہیں، جن میں عسکریت پسند تنظیموں اور ان کے ذیلی نیٹ ورکس کی درست تفصیلات شامل ہیں۔‘‘ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’’ابتدائی طور پر کامیاب ہونے والے کراچی آپریشن میں سیاسی تحفظات کی وجہ سے جلد ہی شدت کم ہوگئی تھی، جو آئی بی کی اطلاعات کی سچائی کی گواہی ہے۔‘‘ آئی بی حالیہ برسوں کے دوران کس طرح ایک فعال ایجنسی کے طور پر سامنے آئی ہے، اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے ایک اور اہلکار نے کہا کہ پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں اس ایجنسی کو آئی ایس آئی کے بعد دوسرے درجے پر رکھا جاتا رہا، اس کے بعد پیپلزپارٹی کی حکومت نے اس کی کارروائیوں کے لیے کچھ وسائل مختص کیے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے بھی آئی بی کو درکار وسائل سے آراستہ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ آئی بی کے ایک سابق اہلکار کا کہنا ہے کہ مسلسل فوجی مداخلت کی وجہ سے آئی بی زوال سے دوچار رہی، جسے 1979ء تک ایک مفید سولین جاسوسی ادارہ سمجھا جاتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ نوّے کی دہائی کے دوران مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی حکومتوں کے مفادات کے مطابق سیاست کا شکار ہوگئی۔ مذکورہ اہلکار نے کہا کہ جنرل مشرف نے بھی آئی بی کو اس کے وسائل سے محروم کیے رکھا، جس کی وجہ سے یہ ایجنسی غیرمؤثر ہوکر رہ گئی۔ سابق وزیرِ داخلہ تسنیم نورانی (2001-2005) کہتے ہیں کہ یہ بات واضح ہے کہ مشرف کو وسائل سے بھرپور آئی ایس آئی پر آئی بی کی بہ نسبت زیادہ بھروسہ تھا۔ جس کے نتیجے میں آئی بی ایک دائرے میں محدود ہوگئی اور اس نے ایک بھرپور قوت کے طور پر ترقی کرنے کا موقع گنوا دیا۔ لیکن انہوں نے اعتراف کیا کہ بعد میں آئی بی نے مثبت اطلاعات فراہم کرنی شروع کردی تھی۔ ایک سوال کے جواب میں تسنیم نورانی نے کہا کہ متحدہ قومی موومنٹ کے ہیڈکوارٹرز پر چھاپہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان ایجنسیوں نے مناسب ہوم ورک کیا تھا اور گرفتار کیے گئے افراد کے خلاف ان کے پاس ناقابلِ تردید ثبوت موجود تھے۔ آئی بی اور آئی ایس آئی کے درمیان تعاون کی کمی جسے طویل عرصے سے موثر انٹیلی جنس کارروائیوں میں ایک رکاوٹ سمجھا جا رہا تھا، کے بارے میں کراچی میں تعینات رہے ایک سینئر پولیس اہلکار نے بتایا ’’دو ایجنسیوں کے درمیان ایک صحت مند مقابلہ کامیابی سے ہمکنار کرسکتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ دونوں ایجنسیوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون میں تیزی سے اضافہ شروع کردیا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ایک فعال آئی بی دہشت گردی کے خلاف کوششوں کو کامیاب بنانے میں مثبت حصہ ڈال سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’اگرچہ فوجی قیادت میں رینجرز کراچی میں ٹارگٹ کلرز پر قابو پانے میں اہم کردار ادا کررہی ہے، تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ حالیہ کامیابیوں میں آئی بی نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا ’’اور ایسا ساری دنیا میں ہی ہوتا ہے، جیسا کہ دنیا کے بہت سے ممالک کئی ایجنسیوں سے کام لیتے ہیں، لیکن ان ایجنسیوں کی کارروائیاں اپنے عوام کے تحفظ کے لیے ہوتی ہیں۔‘‘ وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے داخلی سلامتی سے متعلق پہلی پالیسی پیش کرتے ہوئے باضابطہ طور پر ’’دونوں ایجنسیوں کے درمیان اعتماد کی کمی‘‘ کا ذکر کیا تھا۔ لیکن چار فروری کو انہوں نے قومی اسمبلی کو آئی ایس آئی اور آئی بھی کے درمیان غیرمعمولی تعاون کے بارے میں مسرت کے ساتھ آگاہ کیا تھا ، جس کی وجہ سے کوئٹہ میں شیعہ ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف ایک ہلاکت خیز خودکش حملے کے منصوبے کو ناکام بنایا گیا تھا۔