کوئٹہ: بی ایس او آزاد کے رہنماؤں نے کیچ آپریشن کے دوران بی ایس او آزاد کے لاپتہ زونل رہنماء سنگت رسول جان بلوچ اور دوسرے مغوی بلوچ نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے اور بلوچستان میں بڑے پیمانے پر ہونے والے آپریشن اور نہتے بلوچ عوام کو شہید و زخمی کرنے کے خلاف کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ کئی دھائیوں سے بلوچستان میں ایک جدوجہد چل رہی ہے۔ بلوچ عوام اور بلوچ سرزمین پر موجود فورسز دو فریقوں کی صورت میں آمنے سامنے ہیں۔ اس جدوجہد کے خلاف فورسزکی کاروائیاں بھی روز بہ روز نئی شدت کے ساتھ توسیع پارہے ہیں، بلوچستان میں صورت حال اب ایسی ہے کہ کوئی شخص اپنے گھر پر بھی خود کو محفوظ نہیں سمجھتا۔ کسی سڑک پر سفر کرتے مسافر کو یہ خدشہ ہر وقت رہتا ہے کہ اسے کسی چیک پوسٹ سے اُٹھا کر غائب کردیا جائے گا، غرض کہ بے یقینی و عدم اطمینانی کی کیفیت ہر بلوچ کے ذہن میں سرائیت کرچکی ہے۔بی ایس او آزاد کے رہنماؤں نے کہا کہ میڈیا کی پیشہ ورانہ زمہ داریاں ہی یہی ہیں کہ وہ کسی خطے میں ہونے والی سیاسی و سماجی تبدیلی وسرگرمیوں کے ساتھ ساتھ مظالم کو بھی آشکار کرے۔ لیکن بلوچستان میں صورت حال اس سے یکسر مختلف ہے۔ کیوں کہ آئے روز کی کاروائیوں میں گھروں کو نظر آتش کرنے، نہتے نوجوانوں کو فائرنگ کا نشانہ بنانے و انہیں اغواء کرنے، ہزاروں خاندانوں کو ان کے آبائی علاقوں سے بیدخل کرنے کی کاروائیاں اب تک مقامی پاکستانی میڈیا میں جگہ تو درکنار ایک چھوٹی خبر بھی نہیں بن پائی ہیں۔بلوچستان میں ایسے ہزاروں واقعات رونما ہو چکے ہیں جن کی مثالیں ہم یہاں دے سکتے ہیں۔ لیکن گُزشتہ دنوں تربت آپریشن کے دوران ایف سی کے مطابق 13مزاحمت کاروں کی ہلاکت، اور پھر ایف سی کی جعلی مقابلے میں شہید نوجوانوں کی شناخت سے ایک حقیقت واضح ہو گئی کہ لاپتہ بلوچ اسیران کی مسخ شدہ لاشوں کو پھینکنے کا عمل اب تبدیل کرکے کس طرح وحشت ناک کرنے فیصلہ کیا جا چکا ہے ، ان تمام لاشوں میں حیات بیوس کے علاوہ باقی تمام لاپتہ بلوچ فرزندان کی لاشیں تھیں جنہیں مختلف علاقوں سے فورسز نے اغواء کیا تھا۔ اس سے چند دن قبل نوشکی میں مقابلے میں ہلاکت کے جھوٹے دعوے کرکے کئی مہینوں سے لاپتہ ہونے والے نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئیں۔ جن کی تصدیق لاپتہ افراد کے لواحقین کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے بھی کی۔اس طرح کی کاروائیوں پر میڈیا کی خاموشی کئی سوالات جنم دینے کا سبب بن رہی ہے۔کیوں کہ جیسا کہ پہلے زکر کیا جا چکا ہے بلوچستان میں اب بلوچ عوام و پاکستانی فورسز دو فریقوں کی صورت میں آمنے سامنے ہیں۔لیکن میڈیا اگر ایک فریق کی بیانات سے ہی حالات کا اندازہ لگانے کی کوشش کرے تو یہ حقائق سے پردہ پوشی کے مترادف ہوگا،فوجی آپریشنوں کے دوران نہتے و معزور نوجوانوں کو مسلح تنظیموں کا کمانڈر ظاہر کرکے آسانی سے فوجی ادارے اپنی جھوٹی باتیں میڈیا کے ذریعے پھیلانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ لیکن تمام تر ثبوتوں کے باوجود اور علاقائی تصدیق کے باوجود دوسرے فریق کا کوئی بھی بیان میڈیا میں جگہ نہیں بنا پاتا۔ انہوں نے کہا کہ تربت آپریشن در اصل گوادر تا کاشغر اکنامک کوریڈور کو محفوظ بنانے، اور سرمایہ کار کمپنیوں کو تحفظ دینے کے لئے کیا گیا، فورسز مزاحمت کاروں کی ہلاکت کے جھوٹے دعوے پھیلا رہے ہیں تاکہ بلوچستان سے اپنا کاروبار سمیٹنے کا ارادہ کرنے والے چائنی و دیگر کمپنیوں کا اعتماد بحال کیا جا سکے۔ کیچ آپریشن کے دوران ریڈ کی ہڈی میں بیماری کے سبب معزور ہونے والے نوجوان حیات بلوچ، ’’جو کہ کئی سالوں سے ویل چئیرپر تھے‘‘ کو اس کے گھر میں فائرنگ کرکے شہید کرنے کے علاوہ باقی تمام اُن لاپتہ بلوچ فرزندان کی لاشیں تھیں جنہیں سالوں و مہینوں پہلے مختلف مقامات سے فوجی اہلکاروں نے اغواء کیا تھا ۔ان لاشوں میں یحیٰ ولد فضل حیدر’’جو تربت سے گوادر جاتے ہوئے دوران سفر اغواء ہوئے تھے ‘‘دین محمد بگٹی ’’جسے دشت سے اغواء کیا گیا تھا‘‘دسمبر2013کو اغواء ہونے والے ماسٹر اصغر داد اور بی ایس او آزاد تربت زون کے جنرل سکرٹری، عطاء شاد کالج میں بی اے کے اسٹوڈنٹ اور ڈیلٹا سینٹر کے پرائیوٹ ٹیچرسنگت رسول جان بلوچ ’’جنہیں 7جنوری 2014کو تربت ڈیلٹا کالج کے ہاسٹل سے ایک درجن سے زائد اسٹوڈنٹس سمیت فورسز نے سینکڑوں لوگوں کے سامنے سے اغواء کیا تھا ‘‘ کے لاشوں کی شناخت ہو گئی۔رسول جان بلوچ بی ایس او آزاد کے پلیٹ فارم سے پرامن جدوجہد کررہے تھے۔وہ ایک اسٹوڈنٹ ہونے کے ساتھ ساتھ ڈیلٹا سنٹر میں پرائیوٹ ٹیچر بھی تھے، جہاں وہ نوجوانوں کو پڑھا رہے تھے، بلوچستان میں ایسی ہزاروں داستانیں موجود ہیں کہ سیاسی کارکنوں کو سیاسی تنظیموں سے وابستگی کی بنیاد پر شہید و اغواء کیا گیا ہے، لیکن سول سوسائٹی و میڈیا کے ادارے اس حوالے بھی مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ہم اس سے پہلے بھی یہاں آپ کے سامنے اس خدشے کا اظہار کرچکے تھے کہ چئیرمین زاہد بلوچ، زاکر مجید بلوچ ،بی ایس او آزاد کے زیرحراست ممبران و لیڈران سمیت تمام لاپتہ فرزندان کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں، انہیں کبھی بھی شہید کرکے ویرانوں میں پھینکا جا سکتا ہے، نوشکی میں جعلی مقابلے میں لاپتہ بلوچوں کو شہید کرنے کی کاروائی، اور حالیہ تربت واقعہ سے ہمارے خدشات درست ثابت ہو رہے ہیں، اگر میڈیا اداروں نے بدستور خاموشی برقرار رکھی، یا صرف فوجی موقف سے حالات کا اپنے طور پر اندازہ لگانے کی کوشش کی تو یہ صحافتی شعبے سے سنگین مزاق ہو گا، کیوں کہ ہزاروں خاندانوں کی جبری بیدخلی، آئے روز کی کاروائیوں میں نہتے لوگوں کی شہادتوں، اور اب اس طریقہ کار میں تبدیلی لاتے ہوئے د وران آپر یشن لاپتہ بلوچوں کی لاشیں پھینکنے کا عمل جیسے گھناؤنے کاروائیاں اگر میڈیا کی نظروں سے اوجھل رہیں گے تو اس کا مطلب ہے کہ میڈیا بھی اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک جمہوری و سیاسی طلباء تنظیم کی حیثیت سے بی ایس او آزاد قومی آزادی کے لئے سیاسی پلیٹ فارم پر جدوجہد کررہی ہے۔ دنیا کی کوئی بھی قانون کسی شخص یا تنظیم سے اس کے جمہوری جدوجہد کرنے کے حقوق کو نہیں چھین سکتی۔ بی ایس او آزاد بھی اپنے جمہوری حقوق کا استعمال کرتے ہوئے اپنے مقصد کے حصول کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ بی ایس او آزاد کے چئیرمین زاہد بلوچ، سابقہ سینئروائس چئیرمین زاکر مجید بلوچ سمیت سینکڑوں کارکنان تاحال فورسز کی تحویل میں ہیں۔ جبکہ کامریڈ قیوم، کمبر چاکر، شفیع بلوچ، وحید بالاچ، سمیت سینکڑوں اغواء شدہ کارکنان کی لاشیں مسخ شدہ حالت میں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے ملی ہیں۔ایک جمہوری جدوجہد کرنے والی تنظیم کے لیڈر و ممبران کو اس طرح اغواء کرکے شہید کرنا کھلی دہشتگردی ہے۔ اس دہشتگردی کے باوجود بھی بی ایس او آزاد جمہوری جدوجہد پر یقین رکھتے ہوئے اپنا جدوجہد کررہی ہے۔بی ایس او آزاد اپنے گرفتار لیڈران و ممبران کی بازیابی کے لئے جمہوری جدوجہد کے مختلف ذرائع بارہا آزما چکی ہے، اور ایک سیاسی تنظیم کی حیثیت سے تمام تر ریاستی جبر کے باوجود آئندہ بھی سیاسی طریقہ کار کا استعمال کرے گی۔ہم آپ کی توسط سے اقوام متحدہ و انسانی حقوق کے عالمی اداروں اور غیر جانبدار میڈیا سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں مغوی بلوچ نوجوانوں کی لاشیں پھینکنے کی کاروائیوں کو روکنے اور بلوچ مسئلے کا پر امن حل نکالنے کے لئے فوری کردار ادا کریں۔ کیوں کہ ان اداروں کی خاموشی ہزاروں لاپتہ سیاسی کارکنان کی زندگیوں کوخطرے میں ڈال رہی ہے۔ انسانی حقوق کے اداروں اور میڈیا کی خاموشی سے ریاستی ادارے آسانی سے گرفتار سیاسی کارکنان کو ایسے جعلی مقابلوں میں شہید کرنے کے جھوٹے دعوے آئندہ بھی کرسکتے ہیں۔ جس کے زمہ دار اپنی پیشہ ورانہ کردار سے روگردانی کرنے والے تمام ادارے ہوں گے۔