|

وقتِ اشاعت :   April 17 – 2015

کوئٹہ : این این آئی ( وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ صوبے میں کوئی بڑا آپریشن نہیں ہونے جارہا ہے، تربت کے سانحہ نے انہیں ہلا کر رکھ دیا ہے، مخلوط صوبائی حکومت تربت کے المناک واقعہ کی بھرپور مذمت کرتی ہے، اس واقعہ کے باوجود مکران اور صوبہ بھر میں ترقیاتی عمل جاری رہے گا، یہ بات انہوں نے جمعرات کے روز میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہی، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ صوبے میں کوئی بڑا آپریشن ہونے جا رہا ہے، سانحہ تربت مزدوروں کے تحفظ کے لیے تعینات لیویز اہلکاروں کی بزدلی اور نااہلی کی وجہ سے رونما ہوا، واقعہ کے وقت 8سے 4 لیویز اہلکار ڈیوٹی دے رہے تھے لیکن انہوں نے مزاحمت نہیں کی ، واقعہ کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنا دی گئی ہے جو ایک ہفتہ کے اندر رپورٹ پیش کرے گی جس کی روشنی میں مزید کاروائی ہوگی، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ سانحہ تربت کے باوجود مکران اور صوبہ بھر میں ترقیاتی عمل جاری رہے گا، تربت میں اس وقت تربت یونیورسٹی اور مکران میڈیکل کالج کے منصوبوں پر 600مزدور کام کر رہے ہیں، جن کے تحفظ کو یقینی بنایا گیا ہے، تاکہ یہ اہم منصوبے بروقت مکمل ہو سکیں، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ صوبائی حکومت امن و امان کی بہتری کے لیے بھرپور اقدامات کر رہی ہے اور ہمارے وسائل کا بڑا حصہ پولیس اور لیویز کی تنخواہوں ، انہیں جدید سہولیات کی فراہمی اور ان کی تربیت پر صرف ہو رہا ہے، ہماری کوششوں کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں، کوئٹہ اور خضدار سمیت دیگر اضلاع میں حالات میں نمایاں بہتری آئی ہے تاہم سانحہ تربت ایک بڑا دھچکا ہے، انہوں نے کہا کہ لیویز کو ایک فعال فورس بنایا گیا ہے ہم صورتحال کی مزید بہتری کے لیے پرعزم اور پرامید ہیں، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ہمارے وسائل محدود ہیں اور 190ارب روپے کے بجٹ کا بڑا حصہ تنخواہوں کی ادائیگی پر خرچ ہو رہا ہے، ترقیاتی مد میں صرف 40سے 45ارب روپے بچتے ہیں، موجودہ صورتحال میں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ اگر ہم تمام فنڈز تنخواہوں پر صرف کر دینگے تو ترقیاتی عمل آگے کیسے بڑھے گا۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ سانحہ تربت نے مجھ سمیت ہر درد مند اورذی شعور شخص کو ہلا کر رکھ دیا ہے مزدور معاشرے کا سب سے محروم طبقہ ہے، صوبے میں امن و امان اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لیے سول اور عسکری ادارے مربوط نظام وضع کریں، ان خیالات کا اظہار انہوں نے سول اور عسکری اداروں کے سربراہان کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ تربت کے واقعہ نے مجھ سمیت ہر درد مند اور ذی شعورشخص کو ہلاکر رکھ دیا، مزدور معاشرے کا سب سے محروم طبقہ ہے، جو اپنے بچوں کے لیے نان نفقہ اور رزق کمانے دوہزار کلو میٹر دور آکر صوبے کے ترقیاتی منصوبوں کومکمل اور عوام کی خدمت کر رہا ہے، ایسے نہتے بے گناہ افراد کا قتل کرنا یقیناًبربریت ، ظلم اور انسان دشمنی کی انتہا ہے، انہوں نے کہا کہ سانحہ کے حقائق سے معلوم ہوا کہ یہ سانحہ غفلت، لاپرواہی اور سیکورٹی اداروں میں بہتر اورمربوط رابطوں کے فقدان کے باعث پیش آیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت عسکری قیادت اور انتظامیہ مل بیٹھ کر امن و امان کی بحالی کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کریں، حکومت کی اولین ترجیح اور ہدف بلوچستان کے عوام کو تحفظ اور امن فراہم کرنا ہے، وزیر اعلیٰ نے سوال کیا کہ کیا ہم وزراء اور اشرافیہ سیکورٹی گارڈزاور بلٹ پروف گاڑیوں کے بغیر امن و آشتی پر مبنی معاشرہ تشکیل نہیں دے سکتے ، جس میں اعلیٰ حکومتی اور انتظامی سربراہان سمیت عوام کو بلاتخصیص مکمل تحفظ فراہم ہو، انہوں نے کہا کہ امن کے بغیر نہ تو صوبہ ترقی کر سکے گا اور نہ ہی ہم تعلیم و صحت عامہ سے متعلق اپنے اہداف کو حاصل کر سکتے ہیں، ترقیاتی عمل کو بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رکھنے کے لیے پر امن ماحول ناگزیر ہے، جس کے لیے تما م متعلقہ اداروں کے اعلیٰ افسران سے لیکر نچلی سطح تک سب اہلکاروں کو احساس ذمہ داری کے ساتھ اپنے فرائض احسن طریقے سے سرانجام دینے ہوں گے، انہوں نے کہا کہ کوئٹہ اور خضدار میں سول و عسکری اداروں کے بہتر ومربوط رابطوں اور حکمت عملی کے باعث دہشت گردوں ، جرائم پیشہ عناصر کا قلع قمع کیا گیا اور اب وہاں صورتحال میں نمایاں بہتری آئی ہے، کوئٹہ اور خضدار کے ماڈل کو صوبے کے دیگر اضلاع میں بھی اپنایا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم دہشت گردی اور جرائم کی بیخ کنی نہ کر سکیں، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ مجھ سمیت تمام وزراء اور سرکاری حکام اپنے اعمال کیلئے اللہ تعالیٰ اور عوام کو جوابدہ ہیں، انہوں نے کہا کہ ہم پولیس اور لیویز کی تنخواہوں کو صوبہ پنجاب کی سطح پر لے آئے ہیں، تاکہ وہ یکسوئی کے ساتھ اپنے فرائض احسن طریقے سے انجام دیں اور ان فورسز کی تنخواہوں میں یہ اضافہ ہم نے اپنا اورعوام کا پیٹ کاٹ کر اور ترقیاتی فنڈز میں کمی کر کے کیا ہے، جبکہ پولیس اور لیویز کو جدید آلات فراہم کرنے ان کی تربیت، صلاحیت کار اور استعداد کار میں اضافے کے لیے خاطر خواہ رقم مختص کی گئی ہے، عوامی وسائل سے اربوں روپے فراہم کرنے کے بعد اب ہم پولیس اور لیویز سے بہتر کارکردگی کی توقع رکھتے ہیں اور خاص کر لیویز فورس سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ بلوچستان کی قبائلی روایات کا خیال رکھتے ہوئے کسی بھی موقع پر اپنے ہتھیار دہشت گردوں اور سماج دشمن عناصر کے حوالے نہیں کرینگے بلکہ جوانمردی کیساتھ مقابلہ کر کے جان دینے کو ترجیح دیں گے، وزیر اعلیٰ نے تنبہیہ کی کہ امن ، قومی سا لمیت، بلوچستان کی ترقی ہمارے بنیادی مقاصد ہیں اور جو بھی اہلکار غفلت، کوتاہی اور بزدلی کا مظاہرہ کرے گا اس کے لیے فورس میں جگہ نہیں ہوگی، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ وزیر اعلیٰ، وزراء، سرکاری افسران اور اہلکار سب اپنی ذمہ داریاں اس انداز میں انجام دیں کہ منصب اور ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد وہ معاشرہ میں فخر کیسا تھ سر اٹھا کر زندگی گزار سکیں، قبل ازیں کمانڈر سدرن کمانڈ لیفیٹننٹ جنرل ناصر خان جنجوعہ نے کانفرنس کے شرکاء کو خوش آمدید کہا اور کانفرنس کے اغراض و مقاصد پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے عسکری اور سول انتظامیہ کے ذمہ دار سینیر افسران پر مربوط انداز میں اپنے پیشہ وارانہ فرائض سر انجام دینے پر زور دیا اور کہا کہ تمام فورسز کو چاہیے کہ وہ بلوچستان کو نہ صرف امن دیں بلکہ عوام کو تحفظ اور پیار دیں ، ان کی عزت نفس کو مجروح نہ ہونے دیں۔ کانفرنس میں صوبائی وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی،چیف سیکریٹری سیف اﷲ چھٹہ جی او سیز، سیکریٹری داخلہ، کمشنرز، آرپی اوز، سیکورٹی ایجنسیز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے تمام سربراہان نے شرکت کی۔