|

وقتِ اشاعت :   May 8 – 2015

کوئٹہ: بلوچ نیشنل فرنٹ (بی این ایف )کی جانب سے 4 مئی کو گومازی میں بنام شہدائے مرگاپ و شہید فدا احمد بلوچ اوربیادِ شہداء مئی ایک مرکزی جلسے کا انعقاد کیا گیا ۔ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بلوچ نیشنل فرنٹ (بی این ایف)کے سیکریٹری جنرل اور بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے شہدائے مرگاپ و شہیدفدا احمد بلوچ اوربلوچ شہداکو سرخ سلام اور زاہد جان بلوچ ،دین محمد بلوچ ،ذاکر جان بلوچ،صادق جمالدینی بلوچ سمیت ہزاروں بلوچ فرزندوں کی ہمت و حوصلہ کو سلام پیش کیا جوزندانوں میں بلوچ قومی آزادی کے لئے اذیت وظلم سہہ رہے ہیں مگر پیچھے نہیں ہٹے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گومازی ایک ذر خیز خطہ ہے جس نے بلوچ جہد میں کئی نوجوانوں کی قربانی دی ہے اور آج بھی اس جلسہ کی شکل میں موجود ہیں۔ یہ میری خوش بختی ہے کہ آج اس مقدس سرزمین پر میں اپنے عوام کے ساتھ ہوں۔ اس میدان میں ہماری ماں، بہن، نوجوان و کماش ،سیاسی ورکر ، بلوچ قومی سیاست یا بلوچ آزادی کی جدوجہد میں ایک دوزواہ، اس بہادر اور با حوصلہ عوام کو سلام پیش کرتا ہوں کہ آج دشمن کے تیر و توپوں کی بارش میں یہاں بلوچ راجی اجتماع کا انعقاد کرکے یہ ثابت کر دکھایا کہ ہم بہادر قوم ہیں ہم اپنی سرزمین کے لیے قربان ہونا، اپنی سرزمین کے لیے جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ہم نے اپنے قومی وطن کے لیے قربان ہو نے کا فلسفہ فدا بلوچ ، غلام محمد بلوچ ، لالا منیر ، شیر محمد اور دوسرے شہدا و نوجوانوں سے سیکھا ہے۔ آج بلوچ نوجوان ،پیر و کماش اور ماں بہنوں کا حوصلہ اور ان کی جرات نے ، پارلیمنٹ پرستوں اور نام نہاد حکمرانوں کو جو کل تک اسی سماج، اسی سٹیج کو اپنا کہتے تھے، آج اکثر اپنی لشکر کے ساتھ عہدوں پربیٹھ کر یہاں فورسز بھیج کربربریت کر رہا ہے کو واضح پیغام ہے کہ اب بلوچ نے ان سب کو مسترد کردیا ہے ۔ ہم آزادی کے جہد کار ہیں مراعات یافتہ نہیں ، ہماری مانگ چند مراعات نہیں، ہماری مانگ ایک کرسی نہیں کہ ہم خوف زدہ ہوجائیں۔ تم کس کو موت کا خوف دلاتے ہو، ہم موت کے مسافر ہیں۔ آزادی کے سفر میں بہت سی تکالیف اور مشکلات ہیں لیکن یقین کریں کہ حق کی لڑائی میں ،اپنے وطن کے آزادی کی جدوجہد میں ہزار تکالیف و مشکلات کے باوجود ایک ایسا سکون ،ایسی نشاط اور لذت ملتا ہے ،اس لذت کومراعات یافتہ لشکر نے کہیں نہیں دیکھا ہے ۔ بلوچ کی بہادر ماں،بہادر بہن ، بلوچ کی وہ لیڈر جو کریمہ بلوچ ، سلمیٰ بلوچ،ماہ گنج بلوچ یا عندلیب بلوچ کی شکل میں ہے وہ بہن یہا ں تشریف رکھنے والی بہنوں کی شکل میں ہیں۔ ان بہنوں کی صبراور حوصلے کو ہم دیکھتے ہیں تو ہمیں کون شکست دے سکتا ہے۔ دشمن کو ہر محاذ پر بلوچ فرزندوں نے شکست دی ہے۔آج بلوچ کی آواز، فکر اور نظریہ دنیا کے کونے کونے میں پھیل چکا ہے۔ بلوچ نے اپنے سینکڑوں ساتھی قربان کیے ہیں، اپنی سیاسی قیادت قربان کی ہے لیکن اس کے باوجود بلوچ کی جد و جہد زیر نہیں کیا جاسکا۔ کوئی اس لیے ہمارے پاؤں پہ کلہاڑی نہ مارے کہ وہ سردار یا نواب ہے ۔ اس سرزمین پرحاکمی کا حق صرف بلوچ فرزندوں کا ہے، اس کا انتخاب بلوچ قوم کریگا، یہ استحقاق عام بلوچ کو ہے۔ کیوں اپنے عوام کو کوئی اپنی رعیت تصور کرے؟ کیوں ہم نسلی تعصبات میں اپنے عوام کو نیچا دکھائیں؟ آج بلوچ ایک ہوچکا ہے، آج کوئی بھی بلوچ کو نسلی تعصب کی بھینٹ نہیں چڑھا سکتا، آج کوئی بلوچ کونمازی اور ذکری کے نام پہ تقسیم نہیں کرسکتا۔کیونکہ یہاں اداروں کی حکمرانی ہے، ہم یہاں افراد اور شخصیات کو طاقت ور بنانے کی جدوجہد نہیں کررہے ہیں۔شہید غلام محمد، شہید فدا بلوچ و دوسرے شہداء کی قربانی نے ہمیں طاقتور بنا دیا ہے ، اس طاقت اور اس یکجہتی کو برقرار رکھا جائے ۔یہ بلوچ جدوجہد کی ترقی کے علامات ہیں ، آج بلوچ بھرپور جنگ لڑرہا ہے۔ ہم اداروں ، نظم و ضبط واصولوں کی بات کرتے ہیں ، اسی لیے کچھ لوگ ہم سے دل گراں ہیں اور اپنی تقریر ، تحریر اور سوشل میڈیا کو ہمارے خلاف استعمال کررہے ہیں ۔ آج بے شمار نوجوان اپنے اوپر اپنے قوم کی خاطر تشدد سہ رہے ہیں۔اسکی وجہ یہی ہے کہ آج انھوں نے بلوچ لیڈر شپ پر یقین کرلیا ہے آج میں سمجھتا ہوں کہ ہم میں سے کوئی بھی پیچھے ہٹے تو ہر بلوچ فرزند کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی گولی کواس کے سینے میں سرد کردے۔آج بلوچ قربانیاں قومی آزاد ی ،بہتر مستقبل کے لئے اورٍقومی بقاء کے لئے دے رہا ہے ان قربانیوں کے عوض نہ ہم کسی کو کسی ملٹی نیشنل کمپنی سے ڈیل کرنے کی اجازت دینگے اور نہ ہی اس طاقت کو کسی کی پراکسی بننے کی اجازت دیں گے ۔ سرزمین ہم سب کی ماں ہے، صرف بلوچ نیشنل موومنٹ ،بلوچ نیشنل فرنٹ،بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزادیہ دعویٰ نہیں کرسکتاہے کہ وہی سرزمین کے فرزند ہیں ،یہ سرزمین ان تمام بلوچوں کی ہے جنہیں اس نے اپنے سینے میں سمایا ہوا ہے ۔جس فکر و نظریے کی بنیاد چیئرمین غلام محمد نے چند ساتھیوں کے ساتھ رکھی تھی آج ہم اسی فکر پر سیاست کررہے ہیں۔ آیا نیشنل پارٹی کی قیادت یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ اس فکر پر قائم ہے جو فدا شہید نے دی تھی ۔کیوں نیشنل پارٹی کے ورکر اپنی قیادت سے یہ سوال نہیں پوچھ لیتاآج سے تیرہ ۱۳سال قبل ڈاکٹر مالک یہ کہتے تھے کہ گوادر کاشغر روڑ بلوچ نسل کشی اور بلوچ وطن کو مزید غلام بنانے کی سازش ہے یہ ہمارے سینوں پر گزرے گا ہم قطعاََ اس کی اجازت نہیں دیں گے ۔ آج ان کے ورکر ان سے یہ سوال کیوں نہیں کرتے کہ بلوچ کاخون مانگنے والے کے ہاتھ بلوچ کی خون سے کیوں رنگے ہوئے ہیں ، گومازی ،تمپ ،مند گیبن ،مشکے ،آواران ، شہرک اور گیشکور سے لیکر بلوچستان کے شہر و دیہاتوں میں کئی گھر جلائے گئے ہیں ،ان کا ذمہ ڈاکٹر مالک ، حاصل و کمپنی ہے ۔انہی کے کاسہ لیسوں کو سزا دینے پر آج یہ پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ جہدکار بلوچوں کو قتل کررہے ہیں۔ بلوچیت کا پیمانہ کیا ہے؟ وہ نوجوان جو سرزمین کی آزادی کے لئے اپنا لہو بہارہے ہیں یا وہ جو پنجابی کی دلال اور کاسہ لیس ہیںآج مفاد پرست گروہ بلوچ نیشنل فرنٹ ،بلوچ نیشنل موومنٹ اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد اوردوسرے آزادی پسند تنظیموں کے خلاف پروپیگنڈہ کررہے ہیں انہیں ایک بات جان لینی چاہیے کہ یہ ایک عوامی تحریک ہے۔اس تحریک کے خلاف پروپگنڈہ کرنے والے گروپ نے اگر اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی نہیں کی تو بلوچ عوام انہیں بھی دوسری بلوچ دشمن پارٹیوں کی طرح اپنے اندر جگہ نہیں دیں گے۔ بلوچ نیشنل فرنٹ بلوچ کی امید اوردنیا میں بلوچ قومی آزادی کی آواز ہے ،اس گروہ کوآزادی پسندوں کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کے لئے جہاں سے سگنل مل رہا ہے وہ اچھی طرح جان لیں ہم بلوچ سرزمین، بلوچ آزادی کی جنگ کو کسی کی پراکسی نہیں بننے دیں گے اوربلوچ جنگجو کسی کے کرایہ دار نہیں بنیں گے ۔آج دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پربلوچ آزادی پسندوں کا قتل عام کررہاہے