کوئٹہ : بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ رکن صوبائی اسمبلی سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ آج بے اختیار لوگوں کو صوبہ کا مالک بنادیا گیا ہے بے اختیار مذاکراتی دعوے درحقیقت مذاکرات نہیں بلکہ مذاق رات ہیں ناکامی کے سینگ ہوتے تو موجودہ حکومت کے سینگ کوہ مردار سے بلند ہوتے بلوچستان کا پتھر تک نہ بیچنے کے دعویدار شاید یہ نہیں جانتے کہ یہاں پتھر نہیں بلکہ سونا بک رہا ہے ان خیالات کا اظہار انہوں نے ’’آن لائن‘‘ سے بات چیت کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی تقدیر بدلنے کے دعوے کرکے اقتدار میں آنے والوں نے یہاں کے حالات تو نہیں بدلے تاہم کرپشن ساحل ووسائل کی فروخت اور ظلم و زیادتیوں کے طریقہ کار میں تبدیلی ضرور لے آئے ہیں بلوچستان کے طول و عرض میں آج بھی لاشیں مل رہی ہیں فرق یہ ہے کہ ماضی میں ایک دو لاشیں ملتی تھیں مگر موجودہ حکمرانوں کی مہربانیوں سے اب 20 بیس لاشیں ایک ساتھ مل جاتی ہیں آج جو قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے شاید ہی اس کی مثال آمریت کے دور میں ملی ہو نام نہاد قوم پرستوں نے بلوچستان کو مسائل سے نکالنے کی بجائے خون آلودہ دلدل میں دھکیل دیا ہے انہوں نے کہا کہ آج حکومت خود یہ تسلیم کررہی ہے کہ ناراض رہنماؤں سے مذاکرات میں کامیابیاں حاصل نہیں ہوئیں محض کوششیں جاری ہیں ہم روز اول سے یہ کہہ رہے تھے کہ بے اختیار مذاکراتی دعوے درحقیقت مذاکرات نہیں بلکہ مذاق رات ہیں جس سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں موجودہ حکمرانوں کے پاس تو اتنا بھی اختیار نہیں کہ وہ اپنے حق کی آواز بلند کرسکیں ناراض لوگوں کو منانے کی بات بہت دور کی ہے اور اگر وہ میری اس بات سے اتفاق نہیں کرتے اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سب ٹھیک ہے تو یہ لاشوں کا گرنا ان نام نہاد قوم پرستوں اور (ن) لیگ کی اس قیادت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے جو ہمیشہ سے بلوچستان کے مسائل کے حل کے دعویدار رہے ہیں اور اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بلوچوں کو ختم کرکے بلوچستان کا مسئلہ حل کرلیں گے تو یہ ان کی خیام خیالی ہے انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اقتدار سے قبل میاں محمد نوازشریف نے ہمیں بلوچستان کے مسائل کے حل اور یہاں نفرتوں کے خاتمہ کی یقین دہانی کرائی تھی مگر ایوان کی نرم کرسیاں اور ٹھنڈی ہوائیں شاید وعدوں کو بھلا دیتی ہے موجودہ حکمرانوں نے اقتدار کے حصول کیلئے اصولوں کا سودا کر دیا اورجن حکمرانوں کو اقتدار ہر شے سے زیادہ عزیز ہوجنہیں حکمران ماضی میں قاتل لیگ پکارتے تھے پیاروں کے جنازوں میں شرکت نہ کرنے دینے والوں اورانہیں جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور کرنے والوں کو سینے سے لگایا ہو ایسے حکمرانوں سے کیا تواقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں انہوں نے کہا کہ جنہیں کوئی گھر کا مالک نہیں سمجھتا تھا انہیں صوبہ کا مالک بنا دیا گیا ہے جس سے انہیں وہ سب کچھ حاصل ہوگیا جو حاصل کرنا چاہتے تھے انتہائی افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بلوچستان سے متعلق آج بھی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی یہاں اقتدار میں آنے والے ہر حکمران نے اپنی استعداد کے مطابق تابوت میں کیل ٹھونکے ہیں گوادر کاشغر اقتصادی راہداری کے حوالے سے ہم سمجھتے ہیں کہ یہاں ترقی کی تمام راستے لاہور کو جاتے ہیں اور جو راستہ لاہور کو نہیں جائے گا اس سے ترقی ممکن نہیں انہوں نے کہا کہ جو لوگ ریکوڈک منصوبے پر بلند و بانگ دعوے کررہے ہیں کہ بلوچستان کا ایک پتھر بھی نہیں بکے گا تو شاید انہیں یہ علم نہیں کہ شاید یہاں پتھر نہیں بلکہ سونا بک رہا ہے جس کا یا تو انہیں علم نہیں یا پھر وہ یہ دیکھنا نہیں چاہتے پتھر اور سونے کی قیمتوں میں بہت فرق ہے ۔