|

وقتِ اشاعت :   August 4 – 2015

اسلام آباد : بلوچستان میں فرنٹےئر کانسٹیبلری(ایف سی) کی جانب سے کوئلے کی کانوں پر ٹیکس وصولی کو پشونخوا ملی عوامی پارٹی،پی پی پی،اے این پی سمیت کئی پارٹیوں کے سینیٹروں نے صوبائی معاملات میں مداخلت قرار دیدیا ہے،بلوچستان میں لاپتہ افراد اور لاشوں کا پھینکا جانا معمول بن چکا ہے جس پر عوام میں تشویش ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ماورائے آئین اور قانون اقدامات سے روکا جائے۔سینیٹر عثمان کاکڑ نے بلوچستان میں ایف سی کی صوبائی معاملات میں مداخلت اور ہرنائی میں کوئلے کی کانوں کے مالکان کے ساتھ کئے جانے والے معاہدے اور ان پر ٹیکسوں کے نفاذ سے پیدا ہونے والی صورتحال پر تحریک پیش کرتے ہوئے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد بعض پارٹیاں اس خدشات کا اظہار کر رہی تھی کہ صوبائی خودمختاری میں مداخلت ہورہی ہے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ایف سی کی مداخلت سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ ایف سی صوبائی خودمختاری میں مداخلت کا مرتکب ہو رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے ضلع ہرنائی میں اعلیٰ کوالٹی کے کوئلے کے ذخائر ہیں جہاں پر200سے زیادہ کوئلے کے ٹھیکیدار حکومت کو باقاعدہ ٹیکس ادا کر رہے ہیں مگر دسمبر2014ء میں بعض غیر مقامی قبضہ گروپوں نے ایف سی کے ساتھ ملکر ایک معاہدہ کیا اور ایف سی کو220روپے فی ٹن ادا کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایف سی کا کام صرف امن وامان کی ذمہ داری ہے ان کو ٹیکسوں کی وصولی کا کوئی اختیار نہیں ہے،اس معاہدے کے بارے میں وزیراعلیٰ بلوچستان نے احکامات جاری کئے کہ یہ معاہدہ غیر قانونی ہے،اس کے بعد صوبائی کابینہ نے بھی ایف سی حکام کو اس منصوبے کو ختم کرنے کے احکامات دئیے مگر ایف سی حکام ابھی تک اس منصوبے کو ختم نہیں کر رہے۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس معاملے کوسینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے حوالے کیا جائے۔سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ایف سی صرف بلوچستان کی صوبائی خود مختاری میں مداخلت کر رہی ہے بلکہ آئین اور قانون کے بھی خلاف کام کر رہی ہے،بلوچستان میں ایف سی پر لاپتہ افراد اور لاشوں کے پھینکے جانے پر بے حد تشویش ہے ،ایف سی ماورائے قانون اور ماورائے آئین کام کر رہی ہے اس معاملے پر حکومت کی پالیسی واضح کی جائے۔سینیٹرجنرل(ر) عبدالقیوم نے کہا کہ صوبائی خودمختاری کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے مگر بلوچستان کے حالات کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا،بلوچستان میں ایف سی کے8ونگز ہیں اور4مزید بنائے جارہے ہیں،بلوچستان کی سرحدوں پر ایف سی سمگلنگ روکنے کیلئے تعینات ہے،بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال بے حد خراب ہے،کوئٹہ کی حفاظت،سوئی گیس پائپ لائن،زائرین کی حفاظت ،تیل وگیس کے ذخائر کی حفاظت ایف سی کے ذمے ہے۔انہوں نے کہا کہ ہرنائی کا علاقہ ایک نوگوایریا تھا جسے ایف سی نے تجارت کے قابل بنایا ہے۔انہوں نے کہا کہ ان معاملات کی تحقیقات ہونا ضروری ہے۔سینیٹر سعید غنی نے کہا کہ یہ ایک حساس معاملہ ہے بلوچستان پر شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں کا عمل دخل زیادہ ہے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی حکومت کی جانب سے ایف سی کو لکھے جانے والے خط سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ بلوچستان حکومت ایف سی سے ڈرتی ہے۔سینیٹر باز محمد خان نے کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ بے حد حساس ہے اور ایسے مسائل سے پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس معاملے کو کمیٹی کے سپرد کیا جائے۔سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ مسئلہ ایف سی کے خلاف نہیں بلکہ ایف سی کے بعض اقدامات کے خلاف ہے گزشتہ دو سالوں سے بلوچستان کے حالات بہتری کی جانب گامزن ہیں جس میں صوبائی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بہترین کردار ادا کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ شدت اختیار کر رہا ہے اگر اس مسئلہ کو توجہ نہ دی گئی تو اس سے بڑے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔انہوں نے مطالبہ کیا اس مسئلے کو کمیٹی کے سپرد کیا جائے۔ڈپٹی چےئرمین مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ ایف سی سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام امن وامان کی بحالی ہے،بلوچستان میں حالات کی بہتری میں ایف سی کا اہم کردار ہے،موجودہ مسئلے پر ایف سی،صوبائی حکومت اور مبینہ قابضین کو کمیٹی میں بلایا جائے۔سینیٹر سردار اعظم موسیٰ خیل نے کہا کہ ہم قانون پسند لوگ ہیں،ہرنائی ایک پرامن علاقہ ہے،بلوچستان کے بعض علاقوں میں باقاعدہ شورش پیدا کی جارہی ہے،ایف سی کا بلوچستان کے معاملات میں مداخلت کا کوئی حق نہیں ہے،بلوچستان کی موجودہ حکومت بہتری کی جانب گامزن ہے۔سینیٹر حاصل بزنجو نے کہا کہ کسی بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے کو ٹیکس لینے کا کوئی حق نہیں ہے،اس معاملے کی تحقیقات کی جائیں،صوبے وفاقی وزیر مملکت میاں بلیغ الرحمان نے بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ یہ اہم معاملہ ہے،ہرنائی سے بہترین کوئلہ نکلتا ہے، 2002ء تک وہاں پر کام ہوتا رہا مگر بعد میں حالات خراب ہوگئے اور حکومت نے پابندی لگا دی تھی جس کے بعد کوئلے کی کانوں کے مالکان نے عدالتوں سمیت صوبائی اور ضلعی سطح پر اپنی کوششیں کی جس کے بعد ایک معاہدہ کیا گیا جس میں بلوچستان حکومت اور شعبہ کان کنی کے افسران مکمل طورپر باخبر تھے،اس معاہدے پر بلوچستان حکومت کی جانب سے وزارت داخلہ کو ابھی تک کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک میں ہر کام قانون کے مطابق ہونا چاہئے ،اگر صوبائی حکومت کو کوئی اعتراض ہو تو ہمارے نوٹس میں لایا جائے گا۔چےئرمین سینیٹ نے معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کو قائمہ کمیٹی کے سپرد نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس کیلئے طریقہ کارموجود ہے،بلوچستان حکومت معاملے کو مشترکہ مفادات کونسل میں لے جائے یا وزارت داخلہ کو لکھے اور یا پھر بین الصوبائی رابطہ کمیٹی میں بحث کرے۔انہوں نے کہا کہ عوامی نوعیت کے مسائل کے ساتھ ساتھ ایوان اپنا کام بھی جاری رکھے گی