|

وقتِ اشاعت :   August 28 – 2015

کوئٹہ : وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کے حل کے لیے ہمیں ماضی کو بھولتے ہوئے آگے جانا ہوگا، براہمداغ بگٹی کی مذاکرات پر آمادگی بہت بڑا بریک تھرو ہے جس کا کریڈٹ وفاقی اور صوبائی حکومت ، عسکری قیادت اور سب سے بڑھ کر صوبے کے عوام کو جاتا ہے، بلوچستان میں گذشتہ دس بارہ سال سے قتل و غارت جاری ہے جسے کوئی بھی نام دے دیں اگر اس کو روکنا ہے اور صوبے کے حالات کو ٹھیک کرنا ہے تو سب کو ماضی کو بھولنا پڑے گا جب ہی ایک بہتر کل کا آغاز ہو سکتا ہے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے نجی ٹی وی چینل کو دئیے گئے انٹرویو میں کیا، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ نواب اکبر خان بگٹی فیڈریشن کی سیاست کرتے تھے، براہمداغ بگٹی بھی فیڈریشن کی سیاست کریں گے تو صوبے میں امن وامان کی صورتحال میں بہتری آئے گی، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ایک آمر کے دور میں نواب اکبر خان بگٹی پر پہلا حملہ ہوا جس میں ان کے ستر(70) سے زیادہ لوگ جاں بحق ہوئے تب بھی نواب اکبر خان بگٹی نے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی، انہوں نے کہا کہ عہدے اہم نہیں ریاست، آئین اور سیکورٹی اہمیت رکھتی ہے، جب مذاکرات شروع ہونگے تو بہت سی باتیں طے ہونگی اور راستے کھلتے چلے جائیں گے، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ان کی خواہش ہے کہ باقی ناراض لوگ بھی مذاکرات کی میز پر آئیں تاکہ ایک خوشحال بلوچستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ براہمداغ بگٹی کی مذاکرات پر آمادگی ایک بہت بڑا بریک تھرو ہے جس کا ہم خیر مقدم کرتے ہیں اور اسے آگے لے جانے کے لیے اپنی پوری صلاحیت استعمال کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ امن و مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے اپنی کوشش جاری رکھیں گے، خان آف قلات کی واپسی کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں وزیر اعلیٰ نے کہا کہ صوبے کی تمام اقوام اور قبائل کے معتبرین پر مشتمل جرگہ خان آف قلات سے جلد ملاقات کرے گا، وزیر اعلیٰ نے اس بات کی ضرورت پر زور دیا کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے اور اسے سیاسی بنیادوں پر ہی حل ہونا چاہیے، براہمداغ بگٹی نے جس وسیع النظری کا مظاہرہ کیا ہے اس کا فائدہ اٹھانا چاہیے، ایک اور سوال کے جواب میں وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ بے شک بلوچستان میں بیرونی مداخلت کے شواہد موجود ہیں تاہم اگر ہم خود ٹھیک ہوں اور اپنے تنازعات ختم کریں تو کسی کو ہمارے معاملات میں مداخلت کا موقع نہیں ملے گا، صوبے میں انتہاپسندانہ سوچ کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری آرہی ہے، مسخ شدہ لاشوں کے ملنے کا سلسلہ کم ہو گیا ہے، مذاکراتی عمل مختصر المدت لائحہ عمل ہے، تاہم جب تک بلوچ کی محرومی ختم نہیں ہوگی اور انہیں اپنے وسائل پر اختیار حاصل نہیں ہوگا صوبے کے مسائل کا دیرپا حل ممکن نہیں، ہم نے اس حوالے سے ایک طویل المدتی پالیسی بنا کر وفاقی حکومت کو دی ہے اب یہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پالیسی پر عملدرآمد کو یقینی بنائے، یہاں کے وسائل گوادر پورٹ اور ریکوڈک عوام کو ملنے چاہیں، جس سے ان میں اپنے وسائل پر اختیارات کے حصول کا اعتماد پیدا ہوگا اور احساس محرومی کا خاتمہ ہوگا، ایک اور سوال کے جواب میں وزیر اعلیٰ نے کہا کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف بلوچستان کے مسائل کے حل میں سنجیدہ ہیں اس حوالے سے ہمیں وزیر اعظم اور وفاقی حکومت کا مکمل تعاون حاصل ہے، وفاقی اور صوبائی حکومت کے درمیان مکمل ہم آہنگی اور اچھے تعلقات موجود ہیں اور دوطرفہ مثبت رویہ ہے۔ ایک سوال کے جواب میں وزیر اعلیٰ نے کہا کہ گذشتہ اڑھائی سال کے دوران ہم نے پولیس اور لیویز کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے موثر اقدامات کئے ہیں، محکمہ پولیس میں اصلاحات لائی گئی ہیں ، آئی جی پولیس کو مکمل اختیارات دیتے ہوئے پولیس میں سیاسی مداخلت کا مکمل طور پر خاتمہ کر دیا ہے جس سے امن و امان کی بہتری میں مدد مل رہی ہے۔