شام سے مہاجرین کی یورپ منتقلی پر ہنگری نے اسے عیسائیت کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔
خیال رہے کہ شام گزشتہ کئی سالوں سے جنگ سے متاثر ہے،لیکن گزشتہ برس شدت پسند تنظیم داعش کی جانب سے خودساختہ خلافت کے قیام کے اعلان کے بعد صورت حال بہت زیادہ خرب ہو گئی اور مہاجرین ہنگری کے راستے یورپ کے دیگر ممالک میں داخلے کی کوشش کر رہے ہیں۔برطانوی اخبار گارجین کی ایک رپورٹکے مطابق مہاجرین کے حوالے سے ہنگری کے وزیر اعظم ویکٹر اوبان کا کہنا ہے کہ یہاں (ہنگری) آنے والے مہاجرین ایک بلکل مختلف مذہب سے تعلق رکھتے ہیں، ان کی ثقافت بھی الگ ہے اور ان کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے اور یہ ایک اہم سوال ہے کیونکہ یورپ کی شناخت بنیادی طور پر عیسائیت پر ہے۔
اس حوالے سے ہنگری کے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ یورپین عیسائیت بمشکل ہی یورپ کو عیسائی بنائے رکھے ہوئے ہے جو کہ ایک پریشان کن صورتحال ہے، اس لیے کہ اس کا متبادل نہیں ایسے میں سرحدوں کے دفاع کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔
خیال رہے کہ شام کے مہاجرین کی یورپ ہجرت کے حوالے سے لکسمبرگ میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جارہا ہے، جس میں یورپ آنے والے مہاجرین کے حوالے سے لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔
ہنگری کے وزیر اعظم ویکٹر اوبان نے جرمنی کے اخبار فرینکفرٹ الگیمائین سیتنگ میں لکھا ہے کہ جو کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے یہ یورپ کے لیے خطرناک نتائج کا باعث ہے۔
یورو نیوز کی رپورٹ کے مطابق میڈیا سے گفتگو میں ویکٹر اوبان نے کہا کہ مہاجرین کی آمد یورپ کا مسئلہ نہیں ہے یہ جرمنی کا مسئلہ ہے کیونکہ کوئی بھی ہنگری، سلواکیہ، پولینڈ میں رکنا نہیں چاہتا یہاں سے سب جرمنی جانا چاہیں گے ہمارا کام صرف ان کی رجسٹریشن ہے جس کا تقاضا ہم سے کیا گیا ہے۔
دوسری جانب ہنگری کے وزیر اعظم کے اس دعویٰ کے جواب میں جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل نے کہا ہے کہ مہاجرین کا مسئلہ صرف جرمنی کامسئلہ نہیں ہے۔
جرمن نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے کیرپورٹ کے مطابق سوئزلینڈ کے دورے کے دوران صحافیوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ جرمنی وہ کررہا ہے جو اخلاقی اور قانونی طور پر کیا جا سکتا ہے۔
جینیوا کنونشن کے مہاجرین کے حوالے سے کنونشن کا حوالہ دیتے ہوئے انجیلا مرکل نے کہا کہ اس معاہدے پر صرف جرمنی نے دستخط نہیں کیے بلکہ تمام یورپی ممالک نے اس پر دستخط کیے ہیں۔
واضح رہے کہ جرمنی اور فرانس نے سفارشات بھی تیار کی ہیں کہ کس طرح مہاجرین کو منصفانہ طور پر یورپ میں تقسیم کیا جائے۔
فرانس کے صدر فرانسو اولاند کے دفتر سے جاری ہونے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ مرد ، خواتین اور ان کے خاندان جنگ سے متاثر ہیں ان کو بین الاقوامی حفاظت کی ضرورت ہے۔
یاد رہے کہ اس وقت ہزاروں کی تعداد میں مہاجرین ہنگری کے شہر بڈپست میں موجود ہیں۔
جرمنی کی جانب سے مہاجرین کے لیے کیمپ بنائے گئے ہیں اور جرمنی نے مہاجرین کی بڑی تعداد کو قبول کرنے کی حامی بھری ہے لیکن یورپ کے دیگر ممالک کی جانب سے اس کی حمایت نہیں کی جا رہی، جبکہ جرمنی چاہتا ہے کہ مہاجرین کے حوالے سے کوٹہ مختص کر دیا جائے کہ کس ملک کی ذمہ داری کتنے مہاجرین کی ہوگی۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق یورپ میں رواں برس جولائی تک مہاجرین کی تعداد ایک لاکھ 7 ہزار ہو چکی تھی ۔
جرمن حکام کے اندازوں کے مطابق رواں سال 8 لاکھ مہاجرین کی آمد متوقع ہے جو گزشتہ سال سے 400 فیصد زیادہ ہو گی۔
واضح رہے کہ عراق اور شام میں داعش اور اتحادی فورسز کے درمیان جنگ سے ہزاروں افراد کی ہلاکت ہو چکی ہے، جس کے باعث اس خطے سے شہری یورپ، کینیڈا اور دیگر ممالک ہجرت کر رہے ہیں
اس ہجرت کے باعث کئی دفعہ ان کی کشتیاں بھی سمندر برد ہوئیں اور پناہ گزین ہلاک ہوئے۔