لندن: بلوچ آزادی پسند رہنما حیربیا ر مری نے اپنے بیان میں کہا کہ ڈیورنڈ لائن افغان اور بلوچ قومی بدحالی و غلامی کی نشانی ہے اور اسکو مٹا کر بلوچ اور پشتون تاریخی علاقوں کو ماضی کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ ملانے میں ہی دونوں برادر قوموں کی بقاء کا راز پنہاں ہے، افغانستان کی سابق صدر حامد کرزئی کی جانب سے افغان عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہ کرنے کی بات نہ صرف خوش آئند ہے بلکہ آہستہ آہستہ اب پشتون قوم سمجھ رہی ہے کہ یہ ڈیورنڈ لائن نہ صرف پشتون قوم کو ایک دوسرے سے کاٹ کر انکی اجتماعی قوت کو کاٹنے کی ایک مذموم کوشش ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ پاکستان اپنے پیدا کردہ جہادی گروہوں کے ذریعے افغانستان کو جنگ کا میدان بناکر ہمیشہ کی طرح پشتون عوام کو انکی اصل اور بنیادی مسائل سے غافل رکھنا چاہتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب سے متحدہ ہندوستان کہ سیکڑیٹری خارجہ مورٹیمر ڈیورنڈ کی طرف سے یہ متنازعہ لائن کھینچ کر پشتون قوم کو کئی حصوں میں بانٹا گیا تو اسی دن سے پشتون قوم نے جرات و بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس غیر فطری سرحدی لائن کو تسلیم نہیں کیا اور کئی حوالوں سے ہندوستان کے ساتھ انکی جھڑپیں ہوتی رہی ہیں، 26جولائی 1949کوظاہر شاہ کی حکومت نے افغان قوم پر مشتمل ایک لویہ جرگے میں یہ متفقہ فیصلہ کیا کہ ہم ڈیورنڈ لائن کو نہ صرف نہیں مانتے بلکہ متحدہ ہندوستان سے ماضی میں ہونے والے تما م معاہدوں کو بھی منسوخ کرنے کا اعلان کیا گیااس حوالے سے اگر دیکھا جائے تو آج اس مصنوعی اور غیر فطری بندر بانٹ کی کوئی معقول وجہ موجود نہیں اور عالمی دنیا کو چاہئیے کہ وہ اس امر کا ادراک کرتے ہوئے بلوچ اور پشتونوں سے ماضی میں ہونے ظلم و جبر کا ازالہ کرتے ہوئے پاکستانی ریاست کے خلاف بلوچ اور پشتونوں کی اس حقیقی جد وجہد کا ساتھ دیں۔ حیربیار مری نے مزید کہا کہ آج بھی اس متنازعہ ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے قابض ریاست کے خلاف آواز اٹھنا خوش آئند ہے، انہوں مزید کہا کہ آج جتنے بھی پشتون بلوچستان اور پختونستان میں آباد ہیں انکو چاہیئے کہ وہ بلوچ قوم کے ساتھ برادرانہ تعلقات قائم کرتے ہوئے اپنی قومی اجتماعی قوت کو ملا کر اس قابض ریاست کے خلاف ایک مضبوط جد و جہد کا حصہ بن جائیں کیونکہ آج جن مصنوعی سرحدوں کے سہارے پاکستان اپنی قبضہ گیریت کو دوام دینے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہے وہ اصل میں پشتون اور بلوچ قوم کی غلامی کی علامت ہے، انہوں نے پشتون قوم دوست جماعتوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ آج ہمارا مسئلہ نلکا نالی، روڈ یا کسی اسکو ل و کالج کا نہیں بلکہ ہمارا مسئلہ قومی بقاء کا مسئلہ ہے مگرریاست نے اپنے عیار و مکاریوں سے بہت سارے پشتون اور بلوچ قوتوں کو انتظامی مسائل میں الجھا کر انہیں بنیادی قومی بقاء کے اصل مسئلے سے غافل کردیا ہے، پشتون اور بلوچ اگر آپس میں مل کر تسلط کے خلاف آواز اٹھائیں اور اپنی قومی آزادی سے حاصل کریں تو بلوچ اور پشتوں سرزمین پر سینکڑوں کالج اور یونیورسٹی تعمیر ہو سکتے ہیں اور بلوچستان ایک خوشحال اور پر امن ملک کے طور پر بھی ابھر سکتا ہے جبکہ آج حکمران کی ایما پر کچھ بلوچ اور پشتوں نام نہاد قوم پرست دونوں اقوام کو کبھی کسی کالج تو کھبی کسی ہاسٹل کے مسلے میں الجھا کر آپس میں دست و گریبان کررے ہیں تاکہ دونوں اقوام قبضہ گریت کو فراموش کرکے ایک دوسرے کو اپنا مخالف سمجھ لیں ،انھوں نے کہا کہ پاکستان آج عالمی دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر طالبان سے مذاکرات کے نام پر محض ایک خونی کھیل کھیل رہا ہے۔ جہادی گروہوں کی پیداوار اور انکی آماجگاہ خود پاکستان ہے اور آج بھی افغانستان اسی وجہ سے امن کے لیئے ترس رہی ہے کیونکہ پاکستان اس جنگ کو ایندھن فراہم کررہا ہے پاکستانی فوج بلوچ سر زمین پر بلاواسطہ اور افغانستان میں بلواسطہ طور پر ایک مکمل خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرچکا ہے، روز کی بم دھماکوں اور مسخ شدہ لاشوں کو پھینکنے کا یہ عمل تب تک نہیں رکھ سکتی جب تک پاکستان کی وجود کی طرح اس دنیا کے نقشے پر موجود ہے ۔تمام پشتون قوم دوستوں کو چاہیئے کہ وہ ڈیورنڈ لائن اور افغانستان میں بد امنی کی بنیادی محرک غیر فطری ریاست کے خلاف اپنی قوت کو ایک کرکے میدان میں نکلیں ،نلکے اور نالی کی سیاست کسی قوم کو اسکی بقاء کی ضمانت ہرگز نہیں دے سکتی ۔ پاکستان اور پنجاب کے غلبے میں رہتے ہوئے انتظامی سیاست کی بنیاد پر قوم کو ورغلانہ ایک سراب کی مانند ہوگا جسکا کوئی منزل نہیں ہے ، حقیقی قوم دوستوں کو چاہیئے کہ وہ افغانستان کی حقیقی آواز بن کر اس مصنوعی بندر بانٹ کے خلاف اٹھیں اور افغانستان کی تاریخی علاقوں کی باہم ملاپ کے لیئے ایک حقیقی جد وجہد کریں اور بلوچ قوم اخلاقی و انسانی بنیادوں پر افغانستان کی اس جد وجہد کی بھرپور حمایت کرے گا ۔ بلوچ پشتوں سینکڑوں سال پہلے کی طرح کے عہد نامہ کرتے ہوئے آسیاں اور یورپی یونیں ممالک کی طرح پھر بلوچ پشتون معاہدے کو خطے کی باقی ماندہ ممالک کے ساتھ توسیع دیں تاکہ بلوچ پشتوں خطہ امن ،خوشحالی ،اور ترقی کا گہوارہ بنے ۔ انھوں نے اپنی بات کو دھراتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے پشتوں اگرآزاد بلوچستان میں ایک یونین کے تحت بلوچ کے ساتھ رہنا چاہتے تو بلوچستان میں رہیں اگر وہ افغانستان کے ساتھ جانا چاہتے ہیں وہاں رہیں اس لئے بلوچ قوم کی طرف سے ان پر کوئی پابندی اور زور زبردستی نہیں ہوگا بلوچ پشتوں اپنے اسلاف کی طرح کا معاہدہ کرتے ہوئے اپنے چھوٹے چھوٹے باہمی مسلوں کو بھی حل کر سکتے ہیں اور ایسی معاہدے کو وسعت دیکر خطے کے باقی ماندہ ممالک کو اس میں شامل کرواکر خطے کو امن، خوشحالی ،ترقی اور آسودہ حالی کی جانب بھی گامزن کر سکتے ہیں ۔