|

وقتِ اشاعت :   September 18 – 2015

کوئٹہ:  بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے ریاستی فورسز کی جانب سے بلوچستان میں بے شمارکارروائیاں اور اغواء نماء گرفتاریوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاہے کہ حکومت کی جانب سے بلوچستان میں 9 مہینے میں18 سو سے زائد کارروائیوں میں ساڑھے 8 ہزار افراد کی اغواء نما گرفتاری اور 204 کو قتل کرنے کا اعتراف بوکھلاہٹ کی نشانی ہے جو انہیں ایک عرصے سے میڈیا ، انسانی حقوق اور عالمی اداروں سے چھپا رہے تھے ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ نیشنل ایکشن پلان اور ایپکس کمیٹی بننے پر ہم نے جن خدشات کا اظہار کیا تھا آج وہ سچ ثابت ہوگئیں ایسی کمیٹیوں نے ہمیشہ بلوچ کا خون بہایا ہے بلوچ وسائل کو ہڑپ کرنے کیلئے بلوچ نسل کشی کی جارہی ہے اغواء، گمشدگی ،کارروائی اور سول آبادیوں پرفورسز کا ظلم و جبر اس کی مثالیں ہیں کہ ریاست کو بلوچ قوم نہیں بلوچ وسائل کی ضرورت ہے یہ رویہ قبضہ سے لیکر آج تک جاری ہے حکومت کی جانب اس اعتراف کے بعد عالمی قوتوں اور انسانی حقوق کے اداروں کوریاست پر ان 20 ہزار بلوچوں کا اغواء اور گمشدگی پر زور دینا چاہئے جو کئی سال سے ریاستی اذیت خانوں میں انسانیت سوز مظالم سہہ رہے ہیں ریاست کی جانب سے کارروائیوں اور گرفتا ریوں کے اعتراف کے بعد بھی کسی کا نام ظاہر نہ کرنا اور انصاف تک رسائی نہ دینا عالمی و انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے ڈاکٹر دین محمدبلوچ، صادق جمالدینی،چیئرمین زاہد بلوچ ، ذاکرمجید، رمضان بلوچ، غفور بلوچ سمیت کئی سیاسی رہنماء و کارکن کئی سال سے ریاست کے خفیہ ٹارچر سیلوں میں مقید ہیں ترجمان نے کہا کہ ضلع خضدار کے علاقے گریشہ میں ایک مہینے میں دو بڑی کارروائیوں میں ایک بلوچ سیاسی رہنماء شہید اور پچاس سے زائد اغواء ، درجنوں گھر جلائے گئے ہیں آج کارروائی میں بی ایس او( آزاد) کے رہنما ء اور گریشہ زون کے صدر کمال بلوچ کے گھر پر حملہ کرکے انہیں شہید کیا گیاآج ہی گریشہ کے مختلف علاقوں بدرنگ، زباد، تگراس ، گنبولہ سمیت دوسرے علاقوں میں فورسزکی یلغار نے ذریعے دو درجن سے زائد گھروں کو جلایا گیا50 کے قریب بلوچ فرزندوں کو اغواء کرکے لاپتہ کیا گیا سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کا قتل اور اغواء ریاستی فورسز کی جانب سے تسلسل سے جاری ہے۔