کوئٹہ : بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ پشتون حقوق کی بات کرنے والی نام نہاد قوم پرست جماعت کو چاہیے کہ وہ اپنے لئے سرحدپرخندقیں کھودنے کاکروڑوں کا ٹھیکہ ، بڑی وزارتیں، کوئٹہ چاغی کی نشست پر اسٹبیلشمنٹ کی ملی بھگت سے کامیابی اور افغانستان میں خصوصی نمائندے جیسے عہدے کی مانگ کے بجائے بلوچستان اسمبلی میں ایک قرار داد لے کر آئے کہ پشتونوں کو الگ صوبہ دیا جائے یا اسے خیبر پختونخواء یا فاٹا میں ضم کیا جائے جس کی حمایت بی این پی بھی کرے گی ، روزنامہ آزادی سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے سردار اختر مینگل نے کہا کہ مقامی پشتون اور بلوچوں کے حقوق غصب کرکے انہیں اقلیت میں تبدیل کیا جا رہا ہے ، پشتونخواء ملی عوامی پارٹی (پی ایم اے پی ) کا نام بتائے بغیر سردار مینگل نے کہا کہ صرف بلوچوں کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ،بلوچستان میں بلوچ اور پشتون کے ابتداء سے برادارانہ تعلقات رہے ہیں اور یہاں صدیوں سے امن اوربھائی چارگی سے رہ رہے ہیں ، انہوں نے کہا کہ بلوچستان بھر میں کم سے کم 25لاکھ افغان باشندے آباد ہیں جبکہ رجسٹرڈ افغانوں کی تعداد مٹھی بھر ہے ، ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بلوچوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی گہری سازش کی جار ہی ہے ، اس عمل سے صرف بلوچ نہیں بلکہ مقامی پشتون بھی بری طرح متاثر ہوا ہیں اس وقت کوئٹہ کے زیادہ تر مقامی پشتون دوسرے علاقوں میں ہجرت کرچکے ہیں ، انہوں نے کہا کہ یہ جماعت اسٹبلشمنٹ کی مدد سے کوئٹہ چاغی جیسے علاقے میں اپنے نمائندے کو کامیاب کرا سکتے ہیں اور بڑی بڑی وزارتیں لے سکتی ہے تو کیونکر عملا پشتونوں کیلئے جدوجہد نہیں کرتی ، انہوں نے کہا کہ یہ تمام بیانات اور افغان باشندوں کیلئے پاکستانی شناختی کارڈ کے اجراء میں مدد صرف و صرف بلوچوں کو بلیک میل کرنا ہے اس کٹھن وقت میں وہ بلوچوں کو مزید بلیک میل کررہے ہیں ، گوادر کاشغر اکنامک کوریڈور کی مخالفت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس منصوبے میں بلوچستان کیلئے کچھ نہیں ما سوائے صرف ان کی زمین کے استعمال اور ساحل و وسائل پر قبضہ کرنے کے، اس وقت گوادر کو پانی تک نہیں دیا جارہا ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انہیں بلوچ کی ترقی سے کوئی سروکار نہیں بلکہ وہ دیگر صوبوں کو ترقی دینا چاہتے ہیں ، سردار اختر مینگل نے خصوصی انٹر ویو میں مزید کہا کہ گوادر کاشغر پروجیکٹ کے حوالے سے جو کمیٹیاں بنائی گئی ہیں ان میں صرف ایک فیصد بلوچ کو نمائندگی دی گئی ہے اسکی چیئرمین شپ اور اکثریت پنجاب یا دیگر کو حاصل ہے ، سردار اختر مینگل نے کہا کہ وہ ترقی کے مخالف نہیں لیکن ایسی ترقی کی قطعاً حمایت نہیں کریں گے جس سے بلوچ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ہو ، سردار اختر مینگل نے مزید کہا کہ تاریخ انہیں یاد رکھے گی تاہم انکی پارٹی بہت زیادہ مضبوط نہیں لیکن اس پروجیکٹ کی مخالفت ہر فورم پر ضرور کرے گی ، سردار اختر مینگل نے کہا کہ گزشتہ چند سالوں میں انکی پارٹی کے 70کے قریب متحرک ارکان ٹارگٹ کلنگ میں مارے گئے ہیں اور اس وقت وہ پارٹی منظم کررہے ہیں ، سردار مینگل کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کو چاہیے کہ گوادر پروجیکٹ کے تمام اختیارات صوبائی حکومت کو دے اور اس میں کوئی حرج نہیں کہ جہاں بلوچ چاہیں اور کب کس کے ساتھ معاہدہ کریں، ایسااختیار دینا چاہیے کیونکہ یہ تمام پروجیکٹ بلوچوں کے ہیں،ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں اسلئے زیادہ تر شریک نہیں ہوتے کیونکہ وہاں کوئی مسائل کو سنجیدگی سے نہیں لینااور مذاق بنایا گیا ہے ، قبائلی معاشرے سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں سردار اختر مینگل نے کہا کہ انہوں نے کبھی بھی قبائلی نظام کا دفاع نہیں کیا ہیں تاہم سرداروں پر الزام لگانے والے یہ سوچیں کہ انہوں نے بلوچستان کے عوام کو متبادل کے طور پر کیا دیا ہے ، پاکستان کے قیام میں بھی سرداروں کی مدد لی گئی اور آج دن تک 95فیصد سردار حکومت کے حمایتی اور حکومتوں میں شریک رہے ہیں جب مری ، بگٹی اور مینگل سرداروں و نوابوں کیخلاف بات کی جاتی ہے تو عوام تعلیمی ادارے، انتظامیہ کے دفاتر اور صحت کی سہولیات انہی علاقوں میں مفت فراہم کی گئی زمینوں پر دیکھ سکتے ہیں ، انہوں نے کہا کہ اگر سرداروں کی اکثر یت ہر حکومت میں شامل ہوسکتی ہے تو انہیں پابند کیونکر نہیں کیا جاتا کہ ترقی کیلئے کام کریں ، انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ اپنی کرپشن اور زیادتی چھپانے کیلئے سرداروں کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے دراصل وہ خود کچھ کرنا نہیں چاہتے اور دوسروں کو کام کرنے نہیں دیتے ۔