|

وقتِ اشاعت :   October 14 – 2015

اسلام آباد : سینیٹ میں اپوزیشن جماعتوں اور حکومتی اتحادی پختونخوا ملی عوامی پارٹی کا پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر بحث کے دوران وفاقی وزیر ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال کے پالیسی بیان کے خلاف ایوان کی کارروائی سے واک آؤٹ، قائد ایوان راجہ ظفر الحق کے منانے پر اپوزیشن ارکان نے واک آؤٹ ختم کر کے کارروائی میں حصہ لیا، تاہم حکومتی اتحادی سینیٹر عثمان کاکڑ اور اعظم خان موسیٰ خیل اجلاس میں واپس نہیں آئے، اپوزیشن ارکان نے پاک چین اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ کی پہلے تعمیر کرنے کے وزیراعظم کے 28مئی کی اے پی سی میں کئے گئے اعلان پر عملدرآمد کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اپنے وعدے سے منحرف ہو گئی ہے اور مغربی روٹ کی بجائے مشرقی روٹ کو پہلے تعمیر کیا جا رہا ہے جو منصوبے پر قومی اتفاق رائے کو پارہ پارہ کرنے کے مترادف ہے، حکومتی وعدہ خلافی سے کے پی اور بلوچستان کے احساس محرومی میں اضافہ ہو گا۔ قبل ازیں بحث میں سینیٹرز اعظم خان موسیٰ خیل، تاج حیدر، میرباز محمد خان سمیت دیگر نے خطاب کیا۔ سینیٹر تاج حیدر نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ پ اتفاق رائے ہوا تھا مگر بجٹ میں مشرقی روٹ کے لئے فنڈز رکھے گئے، وزیراعظم کو مغربی روٹ پر کام شروع نہ ہونے بارے خط لکھا گیا جس کا آج تک جواب نہیں ملا، جس کے بعد پارلیمانی کمیٹی نے رپورٹ ایوان میں پیش کی، حکومتی اقدامات نے قومی اتفاق رائے کو قومی انتشار میں بدل دیا ہے۔ فرحت اللہ بابر نے کہا کہ مئی میں وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس میں اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ پر اتفاق کر کے اسے نظرانداز کر دیا گیا، وزیراعظم ایوان میں آکر 28مئی کے اتفاق رائے بارے ارکان کو اعتماد میں لیں، وزیراعظم ایوان کو بتائیں کہ 28مئی کے اتفاق رائے کے بعد وفاقی بجٹ میں مغربی روٹ کے لئے فنڈز کیوں مختص نہیں کئے گئے، پاک چین اقتصادی راہداری کو پنجاب اقتصادی راہداری بننے کا تاثر ختم کیا جائے۔ میر باز محمد خان نے کہا کہ وزیراعظم اور وزیر خزانہ کی طرف سے کمیٹی کے خط کا جواب نہ دینا پارلیمنٹ کی توہین ہے، وزیراعظم اور وزیر خزانہ سمیت اقتصادی امور کے وزیر کو خط کا جواب دینا چاہیے تھا۔ عثمان کاکڑ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ کو منصوبے سے نکال دیا ہے، مغربی روٹ پر موٹروے اور ریلوے ٹریک کا اعلان نہیں کیا گیا، قومی اسمبلی کی کمیٹی کو مسترد کرتا ہوں۔ سردار اعظم خان نے کہا کہ حکومت نے اتفاق رائے کے خلاف مغربی روٹ کیلئے 10ارب روپے اور مشرقی روٹ کے لئے 150ارب روپے رکھے ہیں۔ اعظم سواتی نے کہا کہ مغربی روٹ کی پہلے تعمیر سے ہی گوادر کی تعمیر ممکن ہو گی۔ سسی پلیجو نے کہا کہ مغربی روٹ کی تعمیر کے حوالے سے حکومت سنجیدہ نہیں ،سینیٹ کی کمیٹی کے متوازی قومی اسمبلی کی کمیٹی بنانا ناپسندیدہ اقدام ہے۔ ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ پہلے منظور کئے گئے روٹ پر عملدرآمد ہونا چاہیے، ستارہ ایوب نے کہا کہ مغربی روٹ کی منسوخی سے چھوٹے صوبوں کا احساس محرومی بڑھے گا۔ محسن عزیز نے کہا کہ اقتصادی راہداری منصوبے کو ایک نیا کالا باغ اور مسئلہ کشمیر بنایا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر عطاء الرحمان نے کہا کہ اتفاق رائے کے منصوبے کو متنازعہ نہ بنایا جائے، قومی اسمبلی کی کمیٹی پر اعتراض نہیں لیکن سینیٹ کی برابر نمائندگی ہونی چاہیے۔