|

وقتِ اشاعت :   October 29 – 2015

واشنگٹن: سابق القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن کے ہلاکت کے حوالے سے انکشاف ہوا ہے کہ امریکی صدر براک اوباما کی جانب سے ایبٹ آباد میں اسامہ کی رہائش گاہ پر چھاپے کے احکامات جاری کیے جانے سے قبل اوباما انتظامیہ کے 4 وکلاء نے قانونی پیچیدگیوں کو ہموار کرنے کے حوالے سے کام کیا تھا. نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق سی آئی اے کے کونسل جنرل اسٹیفن پرسٹن، نیشنل سیکیورٹی کونسل کے لیگل ایڈوائزر میری دیروسا، پنٹاگون کے جنرل کونسل جیح جونسن اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف لیگل ایڈوائز (اُس وقت کے ریئر ایڈمرل) جیمز کرافورڈ نے اسامہ بن لادن کی ہلاکت کی صورت میں قانونی وجوہات کے حوالے سے کام کیا تھا. رپورٹ کے مطابق چاروں وکلاء کا کام اس حد تک خفیہ رکھا گیا تھا کہ وائٹ ہاؤس کی جانب سے انھیں معلومات افشا ہونے کے ڈر سے اوباما انتظامیہ کے اعلیٰ وکیل، اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر سے بھی مشاورت لینے کی اجازت نہیں دی گئی تھی. ایرک ہولڈر کو آخری وقت میں یکم مئی 2011 کو اُس وقت بریفنگ دی گئی جب تمام قانونی سوالات کو حل کرلیا گیا تھا. رپورٹ کے مطابق وکلاء نے خود سے تحقیق کی، انتہائی محفوظ لیپ ٹاپس پر خفیہ تجاویز تحریر کیں اور انتہائی قابل اعتماد کوریئر کے ذریعے انھیں ارسال کیا گیا. وکلاء نے چھاپے سے چند دن قبل 5 تجاویز تیار کیں تاکہ آپریشن کے دوران کسی گڑ بڑ کی صورت میں اُس کی وضاحت کی جاسکے. نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ وکلاء کی جانب سے قانونی تجزیے سے مطمئن ہونے کے بعد ہی اوباما انتظامیہ نے پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ پر چھاپے کی اجازت دی تھی، جبکہ کانگریس کو بھی اس حوالے سے کافی تاخیر کے بعد اعتماد میں لیا گیا تھا. چھاپے سے قبل جیح جونسن نے پاکستان کی اجازت اور علم میں لائے بغیر اس کی حدود میں کارروائی کے حوالے سے بھی تجویز تحریر کی تھی، کیوں کہ عالمی قوانین کے مطابق اگر دو ممالک حالت جنگ میں نہ ہوں تو وہ اجازت کے بغیر ایک دوسرے کی حدود میں کارروائی نہیں کر سکتے. رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ اگر پاکستان سے مدد لی گئی تو اسامہ بن لادن کے فرار کی راہ پیدا ہوسکتی ہے. رپورٹ میں ایک عہدیدار کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اوباما انتظامیہ نے اسامہ کو ہلاک کرنے کا حکم دیا تھا، جب کہ ان امکانات پر بھی غور کیا گیا تھا کہ اگر اسامہ نے ہتھیار ڈالنے کی کوشش کی تو بھی انھیں گولی مارنا قانونی ہوگا، کیوں کہ ہوسکتا ہے انھوں نے خودکش جیکٹ پہن رکھی ہو. تاہم چونکہ امریکی ٹیم کو مزاحمت کے سامنے کا امکان تھا، لہذا انھوں نے عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی طاقت کے استعمال پر بھروسہ کیا. رپورٹ کے مطابق ایک قانونی سوال یہ تھا کہ کیا ایک ممکنہ اسلامی مزار بننے سے بچنے کے لیے اسامہ کی لاش کو سمندر میں دفن کیا جاسکتا ہے. اس حوالے سے کرافورڈ کی جانب سے دی گئی تجویز میں کہا گیا کہ سمندر میں دفن کیا جانا، “مذہبی طور پر قابل قبول ہے اور یہ بے حرمتی کے ذمرے میں نہیں آتا”. اسامہ کے مبینہ کمپاؤنڈ کو بم سے اڑانے کے حوالے سے یہ قانونی وضاحت پیش کی گئی کہ اگر ایسا ہوا تو اس میں معصوم لوگ بھی ہلاک ہوسکتے ہیں جبکہ اس طرح سے اسامہ کی ہلاکت کی تصدیق بھی مشکل ہوجائے گی. یاد رہے کہ امریکا کے مطابق القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن کو، پاکستان کے علم میں لائے بغیر ،یکم مئی 2011ء کو پاکستان کے شیہر ایبٹ آباد میں امریکی فوج نے کارروائی کرکے ہلاک کردیا تھا۔ پاکستان کی جانب سے مسلسل ان الزامات کی تردید کی جاتی رہی ہے کہ اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت ملک میں اسامہ بن لادن کی موجودگی کے حوالے سے آگاہ تھی. مارچ 2014 میں انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) نے فوج کی جانب سے نمائندوں کو ایک ٹیکسٹ میسج بھیجا تھا، جس میں کہا گیا تھا، “پاکستان میں کوئی بھی اسامہ بن لادن کی موجودگی سے متعلق نہیں جانتا تھا”. واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے بھی ان دعووں کو مسترد کردیا گیا، جن میں کہا گیا تھا کہ انٹرسروسز انٹیلی جنس ایجسنی (آئی ایس آئی) نے اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد میں ان کے کمپاؤنڈ میں تحفظ فراہم کیا. پاکستانی سفارت خانے کے ترجمان کے مطابق اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد سینیئر امریکی عہدیداران کی جانب سے مختلف مواقعوں پریہ کہا جاتا رہا ہے کہ ان کے حکومت پاکستان یا کسی بھی ایجنسی کے ساتھ اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجودگی سے معلق انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ نہیں ہوا تھا. اسامہ بن لادن کا تعلق سعودی عرب کے مشہور رئیس خاندان ‘بن لادن خاندان’ سے تھا، امریکا نے ان کا نام عالمی دہشت گردوں کی تنظیم میں شامل کر رکھا تھا، جبکہ ان پر کینیا کے دارالحکومت نیروبی کے دھماکوں سے لے کر ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگون پر حملوں کے بھی الزامات تھے۔