|

وقتِ اشاعت :   November 4 – 2015

اسلام آباد: چیئرمین پبلک اکاؤنٹ کمیٹی سید خورشید احمد شاہ نے ہدایت کی ہے کہ گیس کے شعبہ میں ہونے والے نقصانات کے حوالہ سے اعلی سطحی کمیٹی قائم کی جائے اور اوگرا اس حوالہ سے 4 ماہ میں سٹڈی رپورٹ مکمل کر کے پی اے سی کو پیش کرے اور آڈیٹر جنرل سرکلر ڈیٹ ادائیگی پر پہلے والی مرتب کردہ آڈٹ رپورٹ پی اے سی کو پیش کرے جبکہ آڈیٹر جنرل نے کہا کہ قانون کے مطابق وہ رپورٹ صدر مملکت کو دینے کے پابند ہیں، صدر مملکت ہی پارلیمنٹ کو رپورٹ بھجواتے ہیں تاہم پی اے سی کی ہدایت پر ہم رپورٹ پیش کر دیں گے مگر اس رپورٹ کو پبلک نہ کیا جائے،ایم ڈی سوئی سدرن گیس خالد رحمان نے بتایا کہ کمپنی کے نقصانات 15 فیصد ہیں، اس کی بڑی وجوہات میں گیس کنکشنوں پر پابندی بھی ہے، بلوچستان میں گیس کی فکس بلنگ پر غور کیا جا رہا ہے، چوری روکنے کا اور کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔ اجلاس منگل کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین سید خورشید احمد شاہ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ اجلاس میں کمیٹی کے ارکان شیخ روحیل اصغر، شاہدہ اختر علی، سردار عاشق حسین گوپانگ، راجہ جاوید اخلاص، میاں عبدالمنان، شفقت محمود، ڈاکٹر عارف علوی، سید نوید قمر سمیت متعلقہ سرکاری اداروں کے اعلی افسران نے شرکت کی۔ اجلاس میں وزارت پٹرولیم و قدرتی وسائل کے 2009-10ء اور 2010-11ء کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔ پی اے سی کے استفسار پر آڈیٹر جنرل رانا اسد امین نے کہا کہ سرکلر ڈیٹ کی ادائیگی کے حوالہ سے آڈٹ رپورٹ تیار ہو رہی ہے اس کیلئے مزید 15 دن درکار ہوں گے، جولائی 2013ء میں یہ ادائیگیاں ہوئی تھیں، سابق آڈیٹر جنرل نے اس وقت آڈٹ کا حکم دیا تھا، انہوں نے رپورٹ کو ناکافی قرار دے کر فیصلہ کیا کہ اس کا 100 فیصد آڈٹ ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ سابق آڈیٹر جنرل کا کہنا ہے کہ ان کو اس رپورٹ کے حوالہ سے بتایا گیا ہے کہ ذرائع ابلاغ پر اس حوالہ سے حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کیا گیا، میں نے تو ابھی تک رپورٹ دیکھی بھی نہیں ہے، چینل اور اخبار دیکھ لگ رہا ہے کہ ہم نے 330 ارب کے آڈٹ اعتراضات نمٹا دیئے ہیں جو درست نہیں ہے، قانون کے مطابق رپورٹ منظور کر کے صدر مملکت کو بھجوا دی جائے گی۔ شفقت محمود نے کہا کہ سابق آڈیٹر جنرل کیوں برطرف ہوئے، میرے خط کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے، میں نے یہ کہا کہ موجودہ آڈیٹر جنرل پر الزام عائد کیا گیا ہے، میں نے الزام نہیں لگایا، میڈیا میں 480 ارب کی بے ضابطگیوں کا ذکر ہے، میں نے میڈیا رپورٹس کو مدنظر رکھتے ہوئے چیئرمین پی اے سی کو خط لکھا، موجودہ آڈیٹر جنرل جب وزارت خزانہ کے مشیر تھے اس وقت یہ رقم جاری کی گئی ہے، یہ صحیح ہے یا غلط ہے، اس کا جائزہ ہم نے لینا ہے، میں نے اپنے خط میں اپنی طرف سے کوئی الزام نہیں لگایا بلکہ چیئرمین پی اے سی سے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ ہم سرکاری وسائل کے نگران ہیں، یہ ہمارے فرض میں شامل ہے۔ سیکرٹری پٹرولیم ارشد مرزا نے کہا کہ 7 فیصد شرح کے حساب سے وصولی کا فیصلہ وزارت کا نہیں اوگرا کا تھا۔ چیئرمین اوگرا سعید احمد خان نے کہا کہ تمام ادارے اپنے ریونیو ضروریات کے تحت اوگرا کو سمری بھجواتے ہیں جن کا جائزہ لے کر اوگرا فیصلہ کرتا ہے، گیس کے نقصانات کی مختلف وجوہات ہیں، ابھی نقصانات کی یہ شرح 4.5 فیصد ہے، تمام نقصانات صارفین کو منتقل ہو جاتے ہیں، 2009-10ء میں گیس کے نقصانات 5 فیصد سے 7 فیصد کر دیئے، بعد ازاں یہ ایک مرتبہ پھر 5 فیصد کر دیا گیا جس پر دونوں گیس کمپنیوں نے لاہور ہائی کورٹ سے 7 فیصد کا حکم امتناعی لے لیا، مارچ 2014ء میں لاہور ہائی کورٹ نے ہمارے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ اوگرا کا فیصلہ درست تھا، ہم نے عدالت میں اس حوالہ سے ایک سٹڈی کرانے کی یقین دہانی کرائی تھی جو بدقسمتی سے ہمارا کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے نہیں مکمل ہو سکی، اب ہمارا کورم پورا ہوا ہے جلد سٹڈی کرا کے رپورٹ مرتب کی جائے گی۔ سید نوید قمر نے کہا کہ زبانی کلامی لائن لاسز کا تعین کیا جاتا رہا، اس حوالہ سے باقاعدہ سٹڈی ہونی چاہئے، زمینی حقائق کے مطابق دونوں کمپنیوں کے لائن لاسز11 فیصد کے قریب ہیں۔ چیئرمین اوگرا نے ان کی اس بات سے اتفاق کیا کہ لائن لاسز کی شرح 11 فیصد ہے۔ شفقت محمود نے کہا کہ صارفین کے مفادات کے تحفظ کیلئے اوگرا کو بطور ریگولیٹر لائن لاسز میں کمی لانے کیلئے اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ چیئرمین اوگرا نے کہا کہ کرک، کوہاٹ کے علاقوں میں گھریلو صارفین کے شعبہ میں گیس کے نقصانات زیادہ ہیں، صارفین سے جو زائد وصولیاں کی گئی ہیں وہ گیس کمپنیوں سے واپس لی جائیں گی۔ پی اے سی نے ہدایت کی کہ یہ رقم واپس سرکاری خزانہ میں بھجوانے کی بجائے صارفین کے پاس جانی چاہئے۔ ایم ڈی سوئی ناردرن نے کہا کہ مختلف وجوہات کی بناء پر مجموعی طور پر لائن لاسز کی شرح 11.50 فیصد ہے، چوری صرف 4 سے 5 فیصد ہے ، باقی نقصان پائپ لائینیں پرانی ہونے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ ایم ڈی سوئی سدرن نے کہا کہ سوئی سدرن میں یہ نقصانات 15 فیصد ہیں، اس کی بڑی وجوہات میں گیس کنکشنوں پر پابندی بھی ہے، لوگ غیر قانونی ذرائع استعمال کرتے ہیں، بلوچستان میں کوئٹہ قلات پائپ لائن پر نقصانات 92 فیصد ہیں، ہم ان حالات کو کنٹرول کرنے سے قاصر ہیں، بلوچستان میں میٹر ٹمپرنگ زیادہ ہے۔