|

وقتِ اشاعت :   November 19 – 2015

کراچی :  بلوچستان نیشنل پارٹی کے قائد سردار اختر جان مینگل سے ان کی رہائش گاہ پر بی این پی (عوامی ) کے سربراہ سینیٹر میر اسرار اللہ زہری نے ملاقات کی ملاقات میں بلوچستان کی سیاسی مجموعی صورتحال پر بات چیت کرتے ہوئے کہا گیا کہ بلوچستان کے مجموعی قومی مفادات ہمارے لئے اہمیت کے حامل ہیں اس حوالے سے ہمیں باہمی روابط کو ترجیح دینی ہوگی کیونکہ بلوچوں کو جو مسائل درپیش ہیں ان کے لئے قریبی روابط کو فروغ دینے کی ضرورت ہے وقت و حالات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ہم بلوچوں کے قومی اجتماعی مفادات کی خاطر انفرادی و گروہی مفادات کو ملحوظ خاطر نہ رکھیں انہوں نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری روٹ کے حوالے سے تو بات چیت کی جا رہی ہے لیکن گوادر کے بلوچ کی پسماندگی ، بدحالی کے خاتمے اور گوادر کے ہزاروں سالوں سے آباد بلوچوں کے زندگیوں میں ترقی و خوشحالی کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ اقدامات کرتے حکمران دکھائی نہیں دے رہے ہیں میگاپروجیکٹس کے ابتدائی مراحل میں گوادر کے بلوچوں کیلئے ابھی سے مشکلات اور مسائل پیدا کئے جا رہے ہیں اور مقامی لوگوں کو ان کی اپنے ہی آباؤ اجداد ، تاریخی زمینوں سے بے دخل کرنے کی پالیسی جاری ہے اب نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ گوادر کے غیور بلوچ اپنے آباؤ اجداد زمینوں پر جانے کیلئے بھی انہیں انٹری کارڈ دکھانے کی ضرورت پڑ رہی ہے جو دوسری جانب مغربی روٹ کے حوالے سے تو تمام جماعتیں واویلا کر رہی ہے لیکن انہوں نے بلوچوں سے متعلق مسائل کے حل کیلئے آواز تک بلند کی نہ ہی انہیں بلوچوں کے اجتماعی مفادات عزیز ہیں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سب سے پہلے گوادر اقتصادی روٹ سے متعلق پہلی ترجیحات میں گوادر کے غیور بلوچوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جاتا اور تمام تر اختیارات بلوچوں کو دیئے جاتے تاکہ بلوچستان کے عوام میگاپروجیکٹس کے حوالے سے بہتر حکمت عملی اپنا کر عوام کے مسائل اور احساسات کی زیادہ بہتر انداز میں ترجمانی کر سکتے تھے جو ان کا جمہوری حق بھی ہے کہ انہیں اپنے ہی سرزمین پر مکمل واک و اختیار اور ان کی حق ملکیت کو تسلیم کیا جائے جب ایسی روش اپنائی جائے گی تو عوام سمجھیں گے کہ واقعی ترقی و خوشحالی یہاں کے مقامی لوگوں کیلئے ہے اکیسویں صدی میں جب گوادر کے عوام صاف پانی ، انسانی بنیادی ضروریات اور بلوچستان جیسے باوسائل میں کسمپرسی ، معاشی تنگ دستی کا سامنا کر رہے ہیں ان کے باوجود کوئی ایسی پالیسی دیکھنے میں نہیں آ رہی جو ان مسائل کے حل کیلئے ہو انہوں نے کہا کہ ماضی کی روش کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے گوادر اقتصادی روٹ جہاں سے بھی ہو بلوچوں کیلئے ثانوی حیثیت رکھتی ہے جبکہ ہمارے لئے میگاپروجیکٹ بننے سے قومی تشخص ، بقاء اور تاریخی سرزمین ، زبان و ثقافت ملیامیٹ نہ ہو اس کی حفاظت اولین ترجیحات میں شامل ہے ایسا نہ ہو کہ ملکی و بین الاقوامی آبادی کی ایسی یلغار ہو جو ہمیں اقلیت میں تبدیل کرے ہمارے خدشات اور تحفظات جو اکثر اور مسلسل سیاسی و جمہوری انداز میں ہم کہتے چلے آ آ رہے ہیں کہ ان مسائل کو ختم کیا جائے لیکن حکمرانوں کے مزاجی و پالیسیوں سے اب تک یہ دیکھنے میں آر ہی ہے کہ بلوچستان اور بلوچوں کے وسیع تر مفادات کی خاطر مثبت اقدامات نہیں کر رہے ہیں بارہا ہم یہ کہہ چکے ہیں کہ بلوچستان کے وسائل پر بلوچستان کے عوام کے حق کو تسلیم کیا جائے جب بلوچستان کے عوام اس فیصلے کے حوالے سے بااختیار ہوں گے تب ہی ہم یہ کہہ سکیں گے کہ بلوچستان میں حقیقی ترقی و خوشحالی ممکن بن سکے گی اس کے برعکس بلوچوں کی تشویش میں اضافہ فطری عمل ہوگا انہوں نے کہا کہ بحیثیت قوم دوست ، وطن دوست سیاسی قوت کے حوالے سے جو عوام کی حقیقی ترقی و خوشحالی پر یقین رکھتے ہوئے بلوچستان اور بلوچوں کے وسیع تر مفادات ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہیں ہم ہر فورم پر بلوچوں کی حقیقی ترجمانی کرتے رہیں گے اور ان حکمرانوں پر بھی واضح کرتے چلیں کہ جو فیصلے بلوچ قوم کے مفادات کیلئے نہ ہوں اس پر خاموش نہیں رہیں گے بلکہ اپنا سیاسی کردار ادا رکرتے رہیں گے موجودہ حکمرانوں نے بلوچ مسائل کے حل کیلئے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے جو حکمرانوں کی ذمہ داری بنتی تھی جو اس میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں دونوں رہنماؤں نے تفصیل سے بلوچ اور بلوچستان کے قومی مسائل معاملات کے حل کیلئے اس بات کا اعادہ بھی کیا کہ وہ بلوچستان کے اجتماعی مفادات کیلئے ہر فورم پر اپنا سیاسی کردار ادا کریں گے تاکہ قومی تشخص بقاء سلامتی کو ٹھیس نہ پہنچے ۔