|

وقتِ اشاعت :   November 23 – 2015

وزیراعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ فوٹو۔ بنارس خان

وزیراعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ فوٹو۔ بنارس خان


 
کوئٹہ :  وزیراعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ وہ انقلابی نہیں کاش انقلابی ہوتے تو بلوچستان میں انقلاب لاتے تاہم انکی پوزیشن بھی انقلابی نہیں ، انکا کہنا ہے کہ بلوچستان میں منفی جکچر موجود ہیں جس کے تحت ایک مفاد پرست کلاس ہے جو صوبہ میں اسٹیٹس کو کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور اچھے کاموں میں رکاوٹ ڈالانا چاہتے ہیں ، ان خیالات کا اظہار انہوں خصوصی انٹرویو کے دوران کیاانکا کہنا ہے کہ ان کی جماعت اکثریت میں نہیں ہے اسلئے فیصلوں میں اتحادیوں کی رائے بھی لی جاتی اور سمجھوتہ بھی کرتے ہیں ،منفی گروپ کے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں انکا کہناہے کہ بلوچستان میں منفی قوتیں موجود ہیں اور ماضی کی حکومتوں نے ان مفاد پرست کلاس کو مضوبط کیا ہے اور یہ فراد سیاسی جماعتوں، بیوروکریسی ،اسٹبیلشمنٹ اور دانشوروں کے درمیان موجود ہیں اور جب بھی اچھے کام کیے جاتے ہیں تو یہ مفا د پرست کلاس اس میں مسائل پیدا کرتے ہیں ، یہ مفاد پرست کلاس اپنے مفادات کا تحفظ ہر وقت کرتا ہے لیکن ہم بھر پور کوشش کررہے ہیں کہ اس اسٹیٹس کو کو ختم کریں اور انشاء اللہ ہم ضروری کامیاب ہونگے ، انکا کہنا ہے کہ وہ اس پوزیشن میں نہیں کہ کوئی انقلاب لے کر آئے لیکن ضرور ان قوتوں کو کمزور کریں گے ، ایک سوال کے جواب میں وزیراعلی بلوچستا ن نے کہا ہے کہ ان کی پالیسیوں پر سو فیصد تو عملدرآمد نہیں کیا جاتا تاہم وہ آئین و قوانین کے تحت ایگزیکٹو اختیارات کا درست استعمال کرتے ہیں لیکن انہیں اہم فیصلوں پر عملدرآمد کرنے کیئے اتحادی جماعتوں کی جانب دیکھنا پڑتا ہے ، ڈاکٹر مالک نے مزید کہا کہ وہ نہیں کہتے کہ وہ بادشاہ کی طرح اختیارات رکھتے ہیں لیکن آئین و قوانین کے تحت اپنے اختیارات استعمال کررہے ہیں ، لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں ڈاکٹر مالک کا کہنا ہے کہ وہ جب سے اقتدار میں آئے ہیں اس پر کا م کررہے ہیں اور بہت سے لوگ رہا ہوکر اپنے گھروں کو پہنچ گئے ہیں جس میں حالیہ دنوں سابقہ اپوزیشن لیڈر کچکول علی ایڈووکیٹ کے بیٹے بھی شامل ہیں ، انکا کہنا ہے کہ لاپتہ افراد کی بازیابی میں پیش رفت ہوئی ہے ، وزیراعلی بلوچستان کا کہنا ہے کہ جب وہ اقتدارمیں آئے تو پولیس کئی نہیں تھی، بلوچستان لیویز گھر تک محدود تھی ، کوئٹہ سے جیکب آباد اور کوئٹہ سے کراچی کی شاہراہیں سفر کی محفوظ نہیں تھیں اغواء برائے تاوان اور ڈکیتی کی وارداتیں عام تھیں لیکن اب یہ شاہراہیں محفوظ ہیں جبکہ پولیس اور بلوچستان لیویز دوبارہ حرکت میں آ گئی ہے اگر موازانہ کیا جائے تو امن وامان کافی بہتر ہوا ہے اگر کوئی کہے کہ امن امان میں بہتری نہیں آئی تو یہ درست نہیں ہوگا انہوں نے کہا کہ مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی میں واضح کمی آئی ہے ، انہوں نے کہا کہ فرقہ واریت میں کمی آئی ہے تاہم حال ہی میں کوئٹہ میں چند واقعات ہوئے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ انتہائی پسندی کو ختم کرنے کیلئے ابھی بہت کام کرنا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ انکی حکومت نے جرائم پیشہ افرد کو سزائیں دی ہیں اور وہ کارڈ ہولڈرز جو زیادہ تر امن وامان خراب کرنے کے ذمہ دار تھے کو سزائیں دی گئیں ہیں ۔ ڈاکٹر مالک بلوچ کاکہنا ہے کہ انسرجنسی بھی ایک بہت بڑا مسئلہ تھی جب وہ اقتدار پر آئے تاہم اب براہمداغ بگٹی اور پرنس آغا سلیمان داود کی جانب سے مذاکرات کی باتیں ایک مثبت پیش رفت ہے انکا کہنا ہے کہ مسائل بہت زیادہ ہیں اور ان کے حل میں وقت درکار ہے اسلئے کوئی ٹائم فرم دینا مناسب نہیں ہوگا تاہم یہ ضرور کہوں گا کہ پیش رفت ہوئی ، بلوچستان میں دوران اقتدار کوئی ایسا کام جو وہ کرنا چاہتے اور نہیں کرپائے کہ متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ تعلیم اور صحت کے شعبے میں بہت زیادہ اصلاحات نہیں لاسکے جس کی وجہ یہاں رہنے والے افراد کے رویے ہیں اساتذہ اسکول نہیں جاتے اور ڈاکٹر اپنے فرائض نہیں تھے اور میں سمجھتا ہوں یہ ایک کلچر ہے اور اس کو بہتر کرنا بہت ضروری ہے جب تک ہمارے سوچ میں تبدیلی نہیں آئے گی یہ درست نہیں ہوگا ، انکا کہنا ہے کہ ہم اکیسویں صدی میں رہ رہے ہیں تعلیم کی حالت بہتر ہونی چاہیے تھی اور صحت کا نظام بہتر ہونا چاہیے تاکہ لیکن ایسا نہیں ہے ۔بلوچستان کے مستقبل کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ کاکہنا ہے کہ بلوچستا ن کی سماجی اور معاشی ترقی ملک میں جمہوری نظام کے ساتھ وابستہ ہے اگر جمہوریت دیر تک چلے تو بلوچستان کے حالات مزید بہتر ہونگے کیونکہ جو کام ہم نے کیے وہ ریورس بھی ہوسکتا ہے اگر کوئی ڈکٹیٹر شپ دوبارہ آیا ۔ قوم پرست جماعتوں کی کارکردگی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ قوم پرست جماعتوں کو روکنے کیلئے ہمیشہ سے ایک منفی اور مفاد پرست طبقہ سرگرم رہا ہے لیکن ہم انکو کمزور کریں گے ۔