کوئٹہ: وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچ اور پشتون قیادت کی سرمایہ دار، سامراج اور آمریت دشمنی کے خلاف جدوجہد کو ریاست مخالف قرار دینے کی ناعاقبت اندیش پالیسیوں نے ملک اور عوام کے لیے مشکلات کھڑی کیں، جمہوریت اور عوام کی بالادستی قبول کرنے سے ہی ملک کو سیاسی و معاشی استحکام ملے گا، مشرف آمریت کی بلوچستان میں لگائی گئی آگ کو بھجانے کی کوشش کر رہے ہیں، ان خیالات کا اظہار انہوں نے 29ویں پی اے ایف ائیر وار کورس، لینڈ وارفیئر ٹوئرکے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا، اس موقع پر صوبائی وزیر اطلاعات عبدالرحیم زیارتوال، ایڈیشنل چیف سیکریٹری منصوبہ بندی و ترقیات نصیب اللہ بازئی، پرنسپل سیکریٹری محمد نسیم لہڑی، سیکریٹری خزانہ مشتاق احمد رئیسانی و دیگر اعلیٰ حکام بھی موجود تھے، وزیراعلیٰ نے شرکاء کے مختلف سوالات کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ بلوچ اور پشتون قیادت انگریزوں کی نو آبادتی نظام ، سرمایہ دارانہ اور سامراجیت کے خلاف 20ویں صدی سے ہی جدوجہد کرتے آئے ہیں، قیام پاکستان کے بعد بلوچ اور پشتون اکابرین نے ہر آمریت کے خلاف اور عوام اور جمہوریت کی بالادستی کے لیے جدوجہد کی لیکن بدقسمتی سے آمروں نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے ان کی جدوجہد کو ریاستی دشمن سے تعبیر کیا اور عوام کی بالادستی اور جمہوری حقوق سے انکار کیا۔ حکمرانوں کی ایسی ناعاقبت اندیش پالیسیوں اور رویوں نے ملک کو مشکلات سے دوچار کیا، انہوں نے کہا کہ بغیر کسی مداخلت کے عوامی رائے کا احترام اور جمہوریت ہی ملک کے استحکام ،ترقی اور مشکلات سے نجات کا باعث بنے گا۔ جمہوریت کی کمزوری کا علاج مضبوط جمہوریت میں مضمر ہے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ بلوچستان میں مشرف آمریت کی لگائی آگ کو بجھانے کی کوشش کر رہے ہیں، آل پارٹیز کانفرنس اور عسکری قیادت نے مجھے بلوچستان کا مسئلہ سیاسی انداز میں حل کرنے کے لیے مینڈیٹ دیا ہے اور اس سلسلے میں حوصلہ افزا پیش رفت جاری ہے، بلوچستان میں امن و امان، بہتر طرز حکمرانی سے متعلق انہوں نے کہا کہ جب موجودہ مخلوط حکومت نے اقتدار سنبھالا تو یہاں حکومتی ادارے غیر فعال تھے، اغواء برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ، ڈکیتی، راہزنی اور دیگر جرائم روز کا معمول تھے، موجودہ حکومت نے غیرفعال حکومت کو متحرک و فعال کر دیا، تمام جرائم میں غیر معمولی کمی واقع ہوئی ہے، پولیس کے محکمے میں سیاسی مداخلت اور سفارش کلچر کا خاتمہ کر کے اسے بااختیار بنا دیا گیا ہے، پولیس اور لیویز کی تنخواہوں میں اضافے سے صوبے کے بجٹ پر 10ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑا، پولیس اور لیویز کو آلات کی فراہمی کے لیے ایک ارب روپے فرائم کئے گئے، پولیس فورس کی آرمی سے تربیت کرائی جا رہی ہے اور اس وقت پولیس کا پانچواں دستہ زیر تربیت ہے، اس کے علاوہ لیویز فورس کی بھی فرنٹیئر کور سے تربیت کروائی جا رہی ہے، انہوں نے کہا کہ امن و امان کے بعد تعلیم موجودہ حکومت کی ترجیح ہے، صوبائی حکومت نے تعلیم کا مجموعی بجٹ 4فیصد سے بڑھا کر 24فیصد کر دیا ہے، صوبے میں 6نئی یونیورسٹیاں، 3نئے میڈیکل کالجزاور کیڈٹ کالجز تعمیر کئے جا رہے ہیں، تاریخ میں پہلی مرتبہ 5ہزار اساتذہ کو میرٹ اور شفاف انداز میں این ٹی ایس (NTS) کے ذریعے بھرتی کیا گیا ہے، بلوچستان پبلک سروس کمیشن میں اصلاحات کے باعث نوجوانوں کا اعتماد بحال ہوا ہے، انہوں نے کہا کہ صحت کے شعبے میں بھی بہتری لائی جا رہی ہے، ورٹیکل پروگرام پر حکومت نے توجہ مرکوز کر رکھی ہے اور میلینئیم گول کے حصول کے لیے بھی کوششیں جاری ہیں، انہوں نے کہا کہ معدنیات کے شعبے کو ترقی دے کر بلوچستان سے غربت اور پسماندگی کا خاتمہ کیا جا سکتاہے، موجودہ حکومت نے محکمہ معدنیات میں بھی اصلاحات کر کے ایک بااختیار اتھارٹی قائم کی ہے، وزیراعلیٰ نے پاک چائنا اقتصادی راہداری کو بلوچستان، ملک اور خطے کی ترقی کے لیے اہم منصوبہ قرار دیا، انہوں نے کہا کہ ترقی کے ثمرات پر پہلا حق گوادر اور بلوچستان کا ہے، گوادر کو رتو ڈیرو سوراب سے منسلک کرنے کے لیے شاہراہ کی تعمیر پر ترقیاتی کام تیزی سے جاری ہے، انہوں نے کہا کہ بلوچستان کو ماضی میں کرپشن سے متعلق بلیک ہول کہا جاتا تھا، موجودہ حکومت نے اپنی شفافیت ، گڈ گورننس اور مثبت اقدامات کے ذریعے اس تاثر کو زائل کر دیا ہے، وزیراعلیٰ معائنہ ٹیم اور اینٹی کرپشن کو فعال کر دیا گیا ہے، وزیراعلیٰ نے 18ویں آئینی ترمیم کو ملک کی تاریخ کا بہتر عمل قرار دیا اور کہا کہ اس سے ملک میں احساس محرومی کے خاتمے میں مدد ملے گی، صوبائی خود مختاری کے مطالبے کو اگر پہلے ہی تسلیم کیا جاتا تو ملک سیاسی انتشار کا شکار نہ ہوتا۔دریں اثناء وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ پرامن بلوچستان پالیسی کے مثبت نتائج برآمد ہورہے ہیں سیاسی قیادت اور فورسز کی باہمی کاوشوں سے امن وامان کی صورتحال میں نمایاں بہتری آئی ہے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے سینیٹر رحمان ملک کی قیادت میں ملاقات کرنے والے سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ و انسداد منشیات کے اراکین سے بات چیت کرتے ہوئے کیا اس موقع پرصوبائی وزراء میر سرفراز بگٹی، نواب محمدخان شاہوانی ڈاکٹر حامدخان اچکزئی بھی موجود تھے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ پرامن بلوچستان پالیسی کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں جبکہ بلوچستان کے مسئلے کے حل کے لئے مذاکرات مثبت سمت کی طرف بڑھ رہے ہیں امن و امان سے متعلق صوبائی حکومت کے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیاسی قیادت اور فورسز کی باہمی کاوشوں کے نتیجے میں امن و امان کی مجموعی صورتحال میں خاطر خواہ بہتری آئی ہے انہوں نے کہا کہ ماضی میں امن وامان کی خراب صورتحال نے بلوچستان کی معیشت اور تعلیمی شعبے کو شدید نقصان پہنچایا لیکن سنجیدہ حکومتی کوششوں سے حالات میں بہتری آئی ۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ امن و امان تعلیم صحت اور پینے کے پانی کی فراہمی صوبائی معاملہ ہے اور مذکورہ شعبوں کی بہتری ہماری ذمہ داری ہے بلوچستان کو اس وقت زیر زمین سطح آب میں کمی کا سامنا ہے لورالائی سے خضدار تک کا علاقہ شدید بحران کی زد میں ہے اگر فوری طورپر بارش کا پانی ذخیرہ کرنے کے لئے ڈیمز تعمیر نہ کئے گئے تو مذکورہ علاقے صحراء میں تبدیل اور لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوجائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں اڑھائی سے تین کروڑ ایکڑ قابل کاشت اراضی موجود ہے ار بارش کے پانی کو زیر استعمال لایا جائے تو یہاں سبز انقلاب برپا ہوسکتا ہے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے مزید بتایا کہ صوبائی حکومت اپنے قلیل بجٹ میں ڈیمز تعمیر کرنے سے قاصر ہے صوبائی حکومت نے دو سو چھوٹے درمیانے اور بڑے ڈیمز کا پی سی ون تیار کیا ہے وفاق کے تعاون کے بغیر ان کی تعمیر ممکن نہیں ہے انہوں نے کہا کہ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے ملک کا تقریباً نصف حصہ ہے جبکہ بلوچستان کو ملک کے مجموعی وسائل سے صرف نو فیصد ملتا ہے وسیع رقبہ اور کم وسائل یہاں کی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے صوبائی وزیرداخلہ میرسرفراز بگٹی نے بھی قائمہ کمیٹی کو امن و امان کی بہتری کے لئے کئے گئے اقدامات سے متعلق بریفنگ دی۔