|

وقتِ اشاعت :   December 16 – 2015

ڈھاکا: 16 دسمبر 1971 کو متحدہ پاکستان سے علیحدہ ہونے والابنگلہ دیشآج اپنا 45 واں یوم آزادی منا رہا ہے. آزادی کے 44 سال مکمل ہونے پر بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں خصوصی تقریب منقعد کی گئی۔ بنگلہ دیشی اخبار دی ڈیلی اسٹار کی رپورٹ کے مطابق آزادی کی مناسبت سے صدر عبد الحامد اور وزیر اعظم حسینہ واجد نے آزادی کی جدوجہد کرنے والوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔
بشکریہ ایشین ایجبشکریہ ایشین ایج
عبدالحامد اور حسینہ واجد نے آزادی کی یادگار پر بھی صبح سویرے حاضری دی اور خاموشی اختیار کی۔ بنگلہ دیش کے صدر اور وزیر اعظم نے عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمٰن کی قبر پر بھی حاضری دی، ان کے ہمراہ حکومتی جماعت عوامی لیگ کے دیگر رہنماء بھی موجود تھے۔ بعد ازاں اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی رہنماء اور سابق وزیر اعظم خالدہ ضیاء نے بھی آزادی کی یاد گار پر حاضری دی۔ واضح رہے کہ جس وقت پاکستان منقسم ہوا اس وقت مغربی پاکستان کی آبادی 46 فیصد اور الگ ہونے والے مشرقی پاکستان کی آبادی 54 فیصد تھی۔ 1971 میں 9 ماہ تک مشرقی پاکستان میں بد ترین شورش جاری رہی، بنگلہ دیش کے قیام کے بعد پاکستان میں قائم ہونے والے حمود الرحمٰن کمیشن میں اس بات کا انکشاف ہوا کہ ہندوستان نے بنگلہ دیش کے قیام کے لیے مکتی باہنی (باغیوں کی تنظیم) کے 2 لاکھ سے زائد شدت پسندوں کو تربیت، ہتھیار اور مدد فراہم کی۔
ملک کی مشرقی طاقت اور مغربی حصوں میں زمینی رابطہ نہ ہونے کے باعث پاکستانی فوج کو مدد کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جبکہ مقامی سطح پر رضا کاروں کی مدد بھی حاصل کی گئی۔
خیال رہے کہ مشرقی پاکستان میں فوج کی مدد کرنے والے رضاکاروں کو سزائیں دینے کے لیے بنگلہ دیش کے قیام کے 40 سال بعد عوامی لیگ کی حکومت نے 2010 میں ایک متنازع ٹریبیونل بنایا۔ اس متنازع ٹریبیونل نے 1971 میں آزادی کی جنگ میں پاکستان کا ساتھ دینے والی پارٹی جماعت اسلامی اور اپوزیشن کی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے رہنماؤں کو نشانہ بنانہ شروع کیا۔ اس ٹریبیونل نے اسمبلی کے رکن اور وزیر رہنے والے جماعت اسلامی اور بی این پی رہنماؤں کو بھی سزائیں سنائیں۔ اس جنگی ٹریبیونل پر عالمی سطح پر بھی اعتراض کیا گیا کہ اس کی کارروائی متنازع ہے، تاہم بنگلہ دیش کی حکمران جماعت عوامی لیگ نے اس جنگی ٹریبیونل کی کارروائی کو شفاف بنانے کے لیے کسی قسم کے اقدامات نہیں کیے اور عالمی اعتراضآت کو مسترد کر دیا. گزشتہ 2 سال کے دوران بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے 3 اہم ترین رہنماؤں عبد القادر ملا ، محمد قمر زمان اور علی احسان مجاہد کو پھانسی دی جا چکی ہے جبکہ جماعت اسلامی کے سابق امیر 90 سالہ غلام اعظم کو 90 سال قید کی سزا سنائی گئی ۔ دوسری جانب بی این پی کے 6 بار رکن اسمبلی اور وزیر رہنے والے رہنماء صلاح الدین قادر چوہدری کی سزائے موت پر عملدرآمد کیا گیا، صلاح الدین قادر چوہدری کے والد فضل قادر چوہدری متحدہ پاکستان کے قائم مقام صدر اور قومی اسمبلی کے اسپیکر رہے تھے جبکہ وہ مسلم لیگ کے اہم رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے، 1971 میں بنگلہ دیش کے قیام کے بعد شیخ مجیب الرحمٰن کی حکومت نے ان کو گرفتار کر لیا تھا، جن کا انتقال 1973 میں 55 سال کی عمر میں ڈھاکہ جیل میں ہوا۔ واضح رہے کہ حسینہ واجد کی جماعت عوامی لیگ حکومت کا کہنا ہے کہ 1971 میں تحریک آزادی کی جنگ میں پاکستانی فورسز اور جماعت اسلامی کے رہنماؤں کی زیرِ قیادت اُن کے حامیوں کے ہاتھوں 30 لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوئے. مشرقی پاکستان میں شورش اور خانہ جنگی کے حوالے سے آزاد ذرائع کا کہنا ہے کہ ہلاک شدگان کی مجموعی تعداد 3 سے 5 لاکھ کے درمیان تھی۔ بنگلہ دیش میں ایک تسلسل سے سزائے موت دیئے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ جنوری 2010 میں پانچ سابق فوجی افسران کو حسینہ واجد کے والد اور ملک کے بانی رہنما شیخ مجیب الرحمٰن کے قتل کے الزام میں سزائے موت دی گئی تھی۔